دیباچہ از نگاہ راحیل
باب اول
"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
بہت مہربان نہایت رحم والا ہے۔
روز جزا کا مالک ہے۔
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما۔
ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا
نہ ان کا راستہ جن
پر غضب کیا گیا اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔
سورۃالفاتحہ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
نیویارک
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی۔
UNITED NATIONS GENERAL ASSEMBLY
تاریخ تھی 10 جنوری 2022۔
سورج کی تیز کرنیں آج آسمان پر چھائی تھیں۔ ویسے ان دنوں نیو یارک میں اس طرح کا موسم کم ہی ہوا کرتا ۔ گھڑی پر صبح کے دس بج رہے تھے۔
اقوام متحدہ۔۔ جہاں بہت سی قوموں کے نمائندے موجود تھے۔۔ جہاں سفارت کاری کی بازگشت گونجتی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بہت سی نشستوں کی قطاریں۔۔ مختلف ممالک کے جھنڈوں کی نمائش۔۔
جہاں اختلافات پر بات کرنے اور ان کا حل نکالنے کی خواہش بظاہر ہر کسی کے دل میں تھی۔۔ لیکن ۔۔کچھ صرف امن و امان کے نمائندے ہونے کا دکھاوا کرتے۔
اقوام متحدہ میں موجود تمام افراد تقریر کرنے والی شخصیت کو تقریر کرنے کے لیے روسٹرم کے قریب آتا دیکھ رہے تھے۔
تقریر کرنے والی شخصیت بہت پر اعتماد اور باوقار نظر آرہی تھی۔
(اس کی آنکھیں بڑی اور روشن تھیں جس میں بہت سے خواب بسے تھے ۔۔ایسے خواب جو مظلوموں کے حق میں ہوں اور ظالم کے خلاف۔ چہرے کا رنگ صاف اور شفاف ۔۔برف کی طرح سفید ۔ گلابی گال حسن میں مزید اضافہ کرتے۔
وہ گہرے نیلے رنگ کے عبایے اور سکارف میں ملبوس تھی۔ یہ رنگ اس پر خوب جچتا یوں کہ یہ اسی کے لیے بنایا گیا ہو۔)
وہ اب روسٹرم کے سامنے کھڑی تھی۔ ایک نظر اس نے سامنے موجود نشستوں پر بیٹھے لوگوں کو دیکھا اور پھر ایک گہری سانس لی۔ آنکھوں میں بہت کچھ تھا۔۔جذبہ ۔۔ ہمت۔۔ ہمدردی ۔۔امید۔
"نینا احسن" نے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ اس کی آواز کافی رعب دار تھی۔
"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ " نشستوں پر بیٹھے تمام افراد کی نظریں اس پر جمی تھیں۔
"آج میں یہاں جن مسائل پر بات کرنے آئی ہوں وہ مسائل کئی عرصے سے چل رہے ہیں۔ لیکن ان مسائل کے حل شاید کوئی نکالنا ہی نہیں چاہتا۔" اس نے اپنے رعب دار لہجے کو قائم رکھتے ہوئے کہا۔
" مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کئی عرصے سے چلتا آرہا ہے لیکن افسوس ان کا حل آج تک نہیں نکل سکا۔" یہ الفاظ تھے جو وہاں نشتسوں پر موجود کچھ لوگوں کے دلو ں کے لیے اطمینان بخش تھے اور کچھ کا سکون ہلاک کر دینے والے۔
" اقوام متحدہ کا مقصد دنیا میں امن قائم رکھنا ہے اور انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ آخر فلسطین اور کشمیر میں امن کیوں نہیں ہے؟ " اس کی آواز کچھ بلند ہوئی تو کچھ کے چہروں کے تاثرات بدلے۔۔ ماتھے پر بل ابھرے۔
"آخر فلسطین اور کشمیر میں موجود لوگوں کے حقوق کی حفاظت کیوں نہیں ہو رہی؟ میرا آج یہاں آنے کا مقصد یہ تھا کہ میں آپ( اقوام متحدہ ) کو ان کے فرائض یاد کروا کر ان فرائض کو پورا کرنے کی اہمیت کا احساس دلاؤں۔" ایک امید تھی جو اس سے یہ سب کہلوا رہی تھی ۔۔لیکن یہ صرف ایک امید نہیں تھی ۔۔یہ تو ایک جذبہ تھا اپنے مظلوم مسلمانوں کے لیے۔
" اقوام متحدہ نے دنیا میں ہونے والے بہت سے مسائل کا حل نکالا ہے مجھے امید ہے کہ آپ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا حل بھی ضرور نکالیں گے کیونکہ اللہ نے آپ کو یہ طاقت اور اقدار بخشا ہے کہ آپ ان مسائل کا حل نکال سکیں۔" نشستوں پر موجود افراد کے چہروں پر مختلف قسم کے تاثرات تھے۔
"دنیا یہ جان لے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے اور کشمیر صرف پاکستان کا ہے۔"
بلند آواز میں اس نے کہا تو کئی لوگوں کے دل یہ سن کر جیسے جل کر راکھ سے ہو گئے۔ یہ آگ ان کے چہروں اور آنکھوں سے بھی نمایاں ہونے لگی تھی۔
" بانی پاکستان قائداعظمؒ نے فرمایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔"
" اگربھارت اور اسرائیل اپنے غیر قانونی کاموں سے باز آجائیں تو یہی ان کے لیے بہتر ہوگا ورنہ!۔۔
ورنہ یہ جان لیں کہ باطل ہمیشہ مٹ جاتا ہے اور حق ہمیشہ دنیاپرچھاجاتاہے۔" اس نے پر اعتماد انداز میں کہا اور کچھ ی دیر مزید اپنی تقریر جاری رکھنے کے بعد اس نے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔
اس کی تقریر کے اختتام کے بعد چند افراد کے چہروں پر خوشی ۔۔امید۔۔ سکون۔۔ اور بھی بہت کچھ تھا ۔۔کچھ لوگ کسی گہری سوچ میں گم ۔۔ اورکچھ لوگوں کے چہروں پر طیش کے تاثرات خوب نمایاں تھے۔
جن لوگوں کے چہروں پر طیش کے تاثرات آشکار تھے، وہ لوگ اقوام متحدہ میں موجود "اسرائیلی نمائندے"اور" ہندونمائندے" تھے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ ترکی
استنبول
City's Nişantaşı
آسمان پر گہرے سیاہ بادل چھائے تھے جن کے کچھ ہی دیر میں برسنے کے امکان تھے۔ ٹھنڈی ہوا کی لہریں ارد گرد رقص کر رہی تھیں۔ اس ماحول میں مٹی کی ہلکی سی خوشبو بھی نمایاں تھی۔
نشانتاشا استنبول کے ضلع شیشلی میں واقع ایک متحرک جگہ ہے جہاں اعلیٰ درجے کے فیشن بوتیک، وضع دار کیفے اور خوبصورت ریستوراں موجود ہیں۔ نشانتاشا کو استنبول کے سب سے زیادہ فیشن ایبل اور متمول علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
منظر تھا نشانتاشا کے ایک شاپنگ مال کا۔شیشے کے دروازے۔۔ سنگ مرمر کا بنا فرش جو فانوس کی
پرفتن روشنی سے چمک رہا تھا۔مختلف پرفیومز کی خوشبو کیفے کی تازہ کافی کے ساتھ گھل مل سی جاتی۔
معمول کے مطابق آج بھی یہاں لوگوں کی بہت بھیڑ تھی۔ بچے، بوڑھے، مرد حضرات، عورتیں سب سٹیز نشانتاشا میں اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
مالز کا سٹور روم عام طور پر لوگوں کی نگاہ سے دور بنایا جاتا ہے۔ اس مال کا سٹور روم بھی اس کے تہہ خانے میں واقع تھا۔ لوگوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے یہاں بھاری دروازے لگائے گئے تھے۔ یہ کافی کشادہ تھا۔شیلفنگ یونٹس کی قطاریں ہی قطاریں نظر آتیں۔
یہاں موجود تین ترک شہری آپس میں ترک زبان میں کچھ بات چیت کر رہے تھے۔ وہ تینوں گھبراہٹ نہیں ۔۔ بہت گھبراہٹ کا شکار لگ رہے تھے ۔
" براق بے! آپ فکر مت کریں ابھی بھی پندرہ منٹ باقی ہیں۔"
(ماتھے پر بکھرے سیاہ بال اور سیاہ آنکھوں والے ایلدار ازجان نے اپنے بائیں جانب کھڑے شخص سے کہا۔ وہ سفید ٹی شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس تھا۔)
" بھاڑ میں گئے پندرہ منٹ! احمت اس نیلی تار کو جلدی نکالو۔" براق نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے شخص کو ہدایت کی۔
(ان تینوں میں سے سب سے زیادہ دانشور "براق یامان" تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو ہر قسم کے اندھیرے کو مٹانے کی قوت رکھتی۔ سنہرے بال نفاست سے پیچھے کو سیٹ کیے ہوئے تھے۔چہرے کا رنگ صاف اور شفاف تھا۔ سیاہ لانگ اوور کوٹ اور جینز میں ملبوس وہ ایک مشکل کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا تھا۔ اس کی شخصیت واقعی کافی شاندار اور وجاہت سے بھرپور تھی۔)
احمت ایک رنگ برنگی تاروں سے بھر پور چیز، جس کے اوپر ایک ٹائمر موجود تھا،اس کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"براق بے! میرے خیال سے اس لال والی تار کو نکالنا چاہیے۔" احمت نے قدرے بلند آواز میں براق سے مخاطب ہو کر کہا۔
(بھوری آنکھیں اور سیاہ بال جو ایک چھوٹی پونی میں بندھے ہوئے تھے، احمت الپ ان تینوں میں سب سے زیادہ پریشان لگ رہا تھا۔ وہ بھوری ٹی شرٹ کے اوپر ایک سیاہ مفلر اور سیاہ جینز میں ملبوس تھا۔ قد درمیانہ تھا۔ براق کا قد ان تینوں کی نسبت درازتھا۔)
وہ تاروں سے بھر پور چیز دراصل ایک" ٹائم بم" تھی۔ احمت الپ نے جیسے ہی ٹائم بم پر لگی لال والی تار کو نکالا تب ہی ٹائم بم پر لگے ٹائمر کی گنتی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئ۔ اس ہی کے ساتھ ان تینوں کے دل کی دھڑکنیں بھی۔
براق کے ماتھے پر بل زیادہ نمایاں ہوئے۔ ایک گہری سوچ میں وہ چند لمحے کے لیے ڈوب سا گیا۔ دوسری جانب وہ دونوں پہلے سے زیادہ گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار ہو گئے۔
" احمت پیچھے ہٹو مجھے سمجھ آگئ ہے اسے کیسے روکنا ہے۔" احمت کو ٹائم بم کے سامنے سے پیچھے کرتے ہوئے وہ ا س کے پاس کھڑا ہوا۔
براق یامان ٹائم بم پر لگی کچھ تاروں کو نکالنے اور ادھر ادھر کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جو وہ دونوں سمجھ نہ سکیں۔
کچھ ہی دیر میں ٹائم بم کے اوپر لگا ٹائمر اور تیز ہوگیا، اور پھر ٹائمر پر صرف پندرہ سیکنڈ رہ گئے، براق اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھا۔
وہ دونوں سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ یا شاید وہ دونوں جان گئے تھے کہ اس کا انجام اب کیا ہونے والا ہے۔ لیکن اس کا تو انہیں ہمیشہ سے معلوم تھا۔ آخر وہ تینوں ترک فوج کے اعلیٰ عہدے کے افسر تھے، شہادت تو ایک نہ ایک دن انہیں نصیب ہونی ہی تھی۔
ٹائمر پر صرف پانچ سیکنڈ رہ گئے۔ ان دونوں کے چہروں پر ایک عجیب سے تاثرات نمایاں ہوئے جیسے ایک شخص اپنے سامنے موت کو دیکھ کرحواس باختہ سا ہوجاتا ہے ویسی ہی کچھ کیفیت ان دونوں کی بھی تھی اس وقت لیکن براق ایسا نہیں تھا۔ وہ مختلف تھا۔ بہادر تھا۔
"اللہ حق کے ساتھ ہے۔" براق نے ان دونوں کی اس کیفیت کو دیکھ کر کافی پر اعتماد انداز میں کہا تو براق کے ساتھ یہ الفاظ احمت اور ایلدار نے بھی بہت جوش کے ساتھ دہرائے کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ اللہ نے ان کے لیے کو ئی راہ نکال لی ہے۔
براق نے تبھی ٹائم بم کے درمیان میں لگی نیلی تار کو کھینچ کر نکال دیا۔۔
یہ ایک آخری کام تھا جس سے یا تو ان کی اور باقی سب کی جان جاتی یا بچ جاتی۔ اس کے چہرے پر امید تھی اور باقی دونوں کے چہروں پر اب خوف موجود نہ تھا۔
براق اور ان دونوں کی نظریں ٹائمر پر جمی تھی۔ ٹائمر پر چلتی ہوئی گنتی ایک دم رک گئی۔ ساتھ ہی ان تینوں کی سانسیں بحال ہوئیں۔
"آپ نے۔۔ آپ نے کر دکھایا براق بے۔" احمت نے ایک خوش گوار لہجے میں اس سے کہا۔ یہ سن کر ایلدار کے چہرے پر بھی مسکراہٹ ابھری۔ ان دونوں کی نگاہوں میں براق کے لیے ستائش کی چمک خوب واضح تھی۔
ان تینوں کے چہرے پر سے تناؤ کی لکیریں اب غائب ہو چکی تھیں۔
"میں نے کچھ نہیں کیا احمت ۔ جو بھی کرتا ہے ۔۔ خدا کرتا ہے۔۔ ہم انسان تو بس وسیلہ بنتے ہیں ۔"
اس نے کندھے اچکا کر عاجزانہ انداز میں کہا۔ اس کا جواب سن کر وہ دونوں لا جواب ہوئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نینا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے کے کچھ ہی دیر بعد اسمبلی سے باہر جانے لگی کہ اسے کوئی قدرے بلند آواز میں پکارنے لگا۔
اس نے جب پیچھےمڑ کر دیکھا تو دور سے ایک لڑکی اسے پکارتے ہوئے اس کے پاس تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے آرہی تھی۔
"نینامادام! نینا مادام!۔" اس لڑکی کی آواز میں بہت کچھ تھا۔۔خوشی ۔۔ستائش ۔۔ اور بے یقینی۔
(وہ بڑی نیلی آنکھوں اور سفید رنگت والی "میرائے یامان" تھی جو ایک گلابی سکارف جسے ترک طرز کے مطابق چہرے کے ارد گرد لپیٹا گیا تھا، اور ایک گہرے گلابی رنگ کے لانگ فراک میں ملبوس تھی۔)
"Merhaba! I'm Miray Yaman"
(مرحبا! میں میرائے یامان ہوں۔)
اس نے بہت خوش دلی سے نینا کو اپنا تعارف کروایا۔
نینا کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ دونوں چند لمحے آپس میں انگریزی زبان میں گفتگو کرنے لگیں۔
"میں نے آپ کی آج کی تقریر سنی اور مجھے بہت خوشی ہوئ کہ آپ نے فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر بات کی۔" اس نے چند لمحے بعد اس سے کہا تو نینا کو یوں محسوس ہوا کہ وہ اس سے کافی متاثر تھی اور اسے غلط محسوس بھی نہیں ہوا تھا۔ میرائے یامان واقعی اس سے کافی متاثر تھی۔
"بہت شکریہ ! میرے خیال سے ہر کسی کو کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر بات کرنی چاہیے کیونکہ یہ مسائل ایسے ہیں جن کا حل نکالنا باقی تمام دنیا میں چلنے والے مسائل سے زیادہ اہم ہے۔"
اس نے جواب میں کہا۔
میرائے نے نینا کی باتیں سنتے ہوئے اپنے پاس موجود بھورے ہینڈ بیگ میں سے ایک کاپی اور ایک پین نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
"میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں، میں نے آپ کے تمام تجزیے سنے ہیں اور آپ کا ہر تجزیہ بہت لاجیکل ہوتا ہے، آپ واقعی ایک بہت قابل اینکر پرسن ہیں۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا آپ مجھے اپنا آٹوگراف دے سکتی ہیں۔" اس نے بہت امید کےساتھ نینا سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
(نینا کے جو تجزیے "اردو" زبان میں ہوتے وہ انگریزی کے "سب ٹائٹلز "کے ساتھ سوشل میڈیا پر موجود ہوتے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک کے صحافیوں سے کی جانے والی گفتگو اور تجزیے ویسے ہی انگریزی زبان میں ہوتے ۔۔ تو کسی دوسرے ملک کے شخص کے لیے ان تجزیوں کو سننا کوئی مشکل کام نہ تھا۔)
میرائے نے اپنی نوٹ بک اور اپنا پین نینا کی طرف بڑھایا۔ اس نے وہ نوٹ بک اور پین لیا اور پھر میرائے کو اس پر آٹو گراف دینے لگی۔ میرائے کے چہرے پر اس وقت اس قدر خوشی تھی کہ الفاظ اس کی خوشی کو بیان کرنے کے لیے کم پڑ جاتے۔
"میں بھی آپ ہی کی طرح ایک سوشل ورکر ہوں اور میری بہت بڑی خواہش تھی کہ میں آپ سے ملوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میری یہ خواہش آج پوری ہوگئ۔" وہ اسے مزید اپنے بارے میں بتانے لگی۔
(نینا ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر بھی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک"Humanitarian” کی حیثیت سے ہی اقوام متحدہ میں تقریر کرنے آئی تھی۔)
وہ میرائے کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ اس کی نوٹ بک پر اب آٹوگراف لکھ چکی تھی۔ اس نے میرائے کو اس کی نوٹ بک پکڑائی اور پوچھا۔
"کیا آپ ترکش ہیں؟" سوال نینا کی طرف پوچھا گیا۔
"جی! آپ کو کیسے معلوم ہوا؟" میرائے حیران ہوئی۔
" آپ نے جب مرحبا کہا تو مجھے شک ہوا۔" اس نے مسکرا کر کہا۔ یہ سن کر میرائےبھی مسکرائی۔
"آپ کو کیسے پتا کہ مرحبا ترک بولتے ہیں؟"میرائے نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
"میں آج کل ترکی پر ایک ڈاکومینٹری بنا رہی ہوں جس میں۔۔میں ترکی کی زبان، تہذیب، روایات اور ترکی کے بہت سے معاملات اور مسائل کو پڑھ رہی ہوں۔اسی وجہ سے مجھے شک بلکہ یقین ہوگیا تھا کہ آپ ترکش ہیں۔" وہ کہہ رہی تھی تو ساتھ ساتھ اپنی کلائی میں پہنی رسٹ واچ پر وقت بار بار دیکھ رہی تھی۔
"اگر آپ ترکی پر ایک ڈاکومینٹری بنا رہی ہیں تو میں اس میں آپ کی کافی مدد کر سکتی ہوں۔" میرائے نے فوراً خوش دلی سے اسے پیشکش کی۔
"اگر ایسا ہے تو۔۔" اس نے چند لمحے سوچا۔
"ٹھیک ہے یہ بہت ہی اچھا خیال ہے۔ آپ میرا کارڈ رکھ لیں اس پر میرا فون نمبر لکھا ہوا ہے۔" اس نے مسکرا کر اپنے سیاہ ہینڈ بیگ سے ایک چھوٹا سا کارڈ نکالا اور اسے میرائے کو تھمایا۔
"بہت شکریہ ! نینا مادام ۔" اس نے انتہائی خوشی کے عالم میں کہا۔
(اس کا خوش ہونا بنتا بھی تھا۔۔ایک شخص جس کے آپ فین ہوں ۔۔جس سے آپ موٹیویٹ ہوتے ہوں ۔۔اگر آپ اس سے ایک بار بات بھی کر لو تو وہ آپ کے لیے بہت خوشی کی بات ہوتی ہے۔ یہاں تو اسے اس کا فون نمبر تک مل گیا تھا۔ )
"سنو! تمہیں مجھے نینا مادام بلانے کی ضرورت نہیں ہے جسٹ کال می نینا، کیونکہ اب سے ہم دوست ہیں۔ ہیں نا؟" اس نے میرائے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وہ بالکل ساکت سی اسے دیکھنے لگی۔ دل کو یقین ہی جیسے نہ آ رہا ہو۔ نینا اس کے اس رویے کو ناسمجھ پائی جس کی بنا پر اس نے تشویش کا اظہار کیا تو میرائے نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اور پھر ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس نے نینا کو "شکریہ" کہا۔ وہ آج انتہائی خوش تھی۔ چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سٹیز نشانتاشا کے شاپنگ مال کے باہر کھڑا تھا۔ چہرے پر اب ایک اطمینا ن تھا ۔ اس کے سنہرے بال بار بارٹھنڈی ہوا کے چلنے کے باعث ہلکے سےماتھے پر گرتےجنہیں وہ اتنی ہی بار پیچھے کرتا۔ وہ اپنا موبائل کان کے ساتھ لگائے دمیر بے سے گفتگو کرنے میں مصروف تھا۔
(سامنے کچھ ہی فاصلے پر لمبی کھلی اور خوبصورت سڑکیں تھیں جن پر ٹریفیک ایک ترتیب کے ساتھ چل رہی تھی۔ موسم کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا کہ جلد ہی استنبول کو بارش لپیٹ لے گی۔)
"دمیربے! آج تو اللہ نے ہم سب کو بچا لیا لیکن یہ مت بھولیں کہ ایسا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔" اس نے انہیں خطرے کا احساس دلایا۔
"براق ! مجھے یہ سب پہلے سے معلوم ہے۔ تمہیں مجھے بار بار ایک بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔سمجھ آئی ؟دوسری بات یہ کہ آج شام تم تینوں سے میرا ملنا ضروری ہے۔ میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتا ہوں۔" انہوں نے اپنی بات بہت ہی سرد مہری سے کہہ کر فون کھڑک سے بند کر دیا۔
براق کو اس بات پر بالکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ ان کے اس طرح کے رویے سے واقف تھا۔
"اگر آج وہ ٹائمر رک نہ پاتا تو کتنے لوگ موت کی نیند سو جاتے، اللہ کا بہت شکر ہے کہ آج اس نے ان سب لوگوں کو ایک خطرناک سانحہ سے بچا لیا۔" اس کا دل اس وقت سے وہیں اٹکا تھا۔
ایک دم پیچھے سے براق کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ دماغ میں خطرے کا سگنل ابھرا۔ اس نے بغیر کچھ سوچےسمجھے اس ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر مڑور دیا۔
" براق بے! کیا ہوگیا؟ میں ہوں ایلدار۔" اس نے تکلیف کے ساتھ براق سے کہا۔
اس نے ایلدار کا ہاتھ تب ہی چھوڑ دیا۔
"اف واللہ ! واللہ ! ایلدار تم ایسے چوروں کے انداز میں ہمیشہ کیوں آتے ہو؟" براق نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے اکتا کر کہا۔
"تم ڈر گئے تھے نا؟" ایلدار نے اب کی بار مسکرا کر پوچھا تو براق کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے۔
(تیز چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا ایلدار کے سیاہ بال بار بار ماتھے پر لاتی جن کو اب بار بار ہٹا کر ایلدار تھک چکا تھا۔)
"میں اللہ کے علاوہ اور کسی سے نہیں ڈرتا۔" براق نے پراعتماد انداز میں سنجیدگی سے کہا۔
تب ہی ان دونوں کی نظریں شاپنگ مال کے دروازے کی جانب بڑھی جہاں سے اب ان کا تیسرا ساتھی "احمت الپ" شاپنگ مال سے باہر آ رہا تھا۔
احمت کو آتا دیکھ کر براق اور ایلدار کے چہروں پر مسکراہٹ ابھری۔
" ایک تمہاری ہی کمی رہ گئ تھی۔" احمت جب ان کے قریب آیا تو براق نے مسکرا کر کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈرائیور سیاہ رنگ کی کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ نینا کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کے برابر میں اس کی اسسٹنٹ "عریشہ" بیٹھی تھی۔
"نینا میڈم آپ کو نہیں لگتا کہ اب آپ کو تھوڑا سنبھل کر ہر قدم اٹھانا ہوگا۔"
(سیاہ بال ایک جوڑے میں بندھے ہوئے تھے، سفید شرٹ کے اوپر ایک چھوٹا سیاہ کوٹ اور سیاہ سکرٹ میں ملبوس عریشہ نے نینا سے کچھ پریشان کن لہجے میں کہا۔ )
"میں سمجھ گئ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔" چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے عریشہ کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"سنو بات صرف اتنی ہے کہ اگر میں آج اسرائیل اور بھارت کے ظلم سے ڈر گئ تو میں ان لوگوں کی کبھی مدد نہیں کر پاؤں گی جو روز کشمیر اور فلسطین میں ناحق قتل کر دیے جاتے ہیں۔" وہ کہہ رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں سرخی اتر آئی۔ عریشہ یہ سن کر خاموش ہو گئی اور کھڑکی سے باہر نیویارک کی صاف ستھری سیدھی جاتی سڑک کو دیکھنے لگی۔
"آخر کیا فائدہ آپ کے اقوام متحدہ جا کر فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر بات کرنے کا؟ جبکہ آپ اور میں دونوں یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔" اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ نینا کے ماتھے پر بل پڑے۔
(کھڑکی کھلی تھی جس میں سے تازی ٹھنڈی ہوا گزر رہی تھی۔)
"یو نو واٹ! لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ ہم یہ یقین کر لیں کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔" اس نے قدرے بلند آواز میں کہا تو ڈرائیور نے ایک مرتبہ ہلکی سی نظر پیچھے دہرائی اور پھر دوبارہ سے ڈرائیونگ کرنے لگا۔ وہ انگریزی سمجھ سکتا تھا ، اردو نہیں ۔
"اگر ظلم کے خلاف کوئی بھی شخص آواز نہ اٹھائے تو یہ معاشرہ انسانوں کے رہنے کے لیے نہیں ہے بلکہ جانوروں کے لیے ہے اور جہاں تک بات فلسطین اور کشمیر کے مسائل کے حل ہونے کی ہے۔ تو یہ جان لو کہ اللہ نے قرآن پاک میں وعدہ کیا ہےکہ باطل کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔"نینا نے اپنی بات مکمل کی تو اس کی آنکھوں میں بہت کچھ تھا۔ عریشہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آتا اور جاتا۔
"نینا میڈم لیکن۔۔"
عریشہ نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے سننا نہ چاہا۔
"تم میری ایک اور بات سن لو اور سمجھ بھی لو۔ اللہ نے انسانوں کو اس دنیا میں بلاوجہ نہیں بھیجا بلکہ ہر انسان کا اس دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں تب تک کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی رہوں گی۔ چاہے پوری دنیا ہی میرے خلاف کیوں نہ ہوجائے میں حق کا راستہ کبھی نہیں چھوڑوں گی۔" اس نے پر اعتماد انداز میں کہا تو اب عریشہ کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تینوں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔ براق ان تینوں میں سب سے آگے تھا اور باقی دونوں اس کے پیچھے قدم ملاتے ہوئے چل رہے تھے۔ وہ سوچوں کے دائرے میں گم تھا اور باقی دونوں ایک دوسرے سے مخاطب تھے۔
"ویسے دمیر صاحب ہم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"
احمت نے ناسمجھی کے عالم میں ایلدار سے پوچھا۔
"اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں ان سے ملنے جاتا کیا؟"
اس نے مسکرا کر کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"ویسے ایلدار اگر تمہیں معلوم بھی ہوتا تب بھی تم ان سے ملنے ضرور جاتے کیونکہ تم ان کے غصے سے کچھ زیادہ ہی ڈرتے ہو۔"
احمت نے ایلدار کو طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ان دونوں کی گفتگو جاری رہی اور اس کی خاموشی بھی۔ بادلوں کی گرج اب ہلکی سی محسوس ہونے لگی تھی۔ استنبول کی یہ دوپہر سیاہ بادلوں کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
چند لمحے گزر گئے۔ وہ تینوں ابھی بھی ویسے ہی چل رہے تھے۔ براق کی خاموشی ا ن دونوں نے بھی نوٹ کی تھی لیکن ابھی تک اس کی خاموشی کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش ان دونوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی۔ وجہ شاید وہ دونوں جانتے بھی تھے ۔۔ لیکن پھر بھی ابھی تک پوچھا نہیں تھا۔
"براق بے! آپ اب ریلیکس ہو جائیں۔ " احمت نے جب کہا تو براق نے اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
"میں ٹھیک ہوں احمت۔" اس نے ابرو اچکا کر معمولی سے انداز میں کہا۔
"لیکن آپ کی خاموشی یہ بتا رہی ہے کہ آپ ابھی تک ٹینشن میں ہیں۔"
( احمت کو لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی تک صبح والے واقعے کی فکر اور پریشانی میں ہی کھویا ہو اتھا لیکن کون جانے کہ براق یامان کو کن کن باتوں کی فکر اور پریشانی تھی۔)
٭٭٭٭٭٭٭٭
ان دونوں کے درمیان خاموشی قائم تھی۔ ڈرائیور کار ایک محدود رفتار کے ساتھ چلا رہا تھا۔
"نینا میں تمہاری اسسٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ تمہاری پرانی دوست بھی ہوں۔مجھے صرف تمہاری فکر ہے۔تمہارے پہلے ہی دشمن کم ہیں جو تم اب اور اپنے دشمن بنا رہی ہو۔" اس خاموشی کو عریشہ نے ایک پریشان کن لہجے میں توڑا۔
"تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" نینا نے اب کی بار سر سری سے انداز میں کہا۔
"اگر آپ کو کچھ ہوگیا؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھ رہیں کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔"
اب کی بار عریشہ سے رہا نہ گیا اور اس کے دل میں جو تھا اس نے فوراً کہہ ڈالا۔
"عریشہ ! بس اب مجھے اس ٹوپک پر کوئی بات نہیں کرنی۔"
نینا نے اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات قائم کرتے ہوئے کہا تو اب عریشہ بالکل خاموش ہو گئی۔ رینویک ہوٹل تک باقی کا سفر خاموشی سے ہی گزرا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Tuğra Restaurant, Istanbul, Turkey
استنبول کی یہ شام کافی پرفتن تھی۔ آسمان سے بارش کے نرم قطرے زمین پر برس رہے تھے۔ سرمئی اور چاندی کے رنگوں کا آسمان پر بسیرا تھا۔
وہ تینوں تعورا ریستوراں میں دمیر صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔
( نیلے رنگ کے کارپیٹس پر سفید اور سیاہ کرسیاں میزوں کے ارد گرد رکھی تھیں ۔ میزوں کو خوبصورت سفید چادروں سے ڈھکا گیا تھا ۔ سفید دیواروں کے اوپر خوبصورت ڈیزایئنز بنے ہوئے تھے۔ یہ شان و شوکت کا ایک شاہکار تھا۔ یہاں آنے والے سیاح ترکوں کے کھانوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے۔ ان کے کھانوں میں عثمانی کھانوں کے ذائقوں کی جھلک موجود تھی۔)
ایک میز کے ارد گرد موجود تین کرسیوں پر وہ تینوں بیٹھے تھے ۔ براق بار بار گھڑی پر وقت دیکھ رہا تھا۔ احمت اور ایلدار کے چہروں پر اب بیزاری۔۔تھکن ۔۔اور اکتاہٹ صاف آشکار تھی۔
"آخر کب آئیں گے دمیر صاحب؟"
یہ سوال ایلدار ایک بار نہیں کئی بار پوچھ چکا تھا۔
"تم ان کی عادت سے تو واقف ہو ایلدار۔"
احمت بھی ایک ہی جواب بار بار دے کر اب تھک چکا تھا۔
"کیا تم دونوں تھوڑی دیر کے لیے خاموش نہیں رہ سکتے؟"
ان دونوں کی بلاوجہ کی گفتگو سے تنگ آ کر براق نے کہا۔ وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ احمت نے میز پر دونوں بازو رکھیں اور ان پر اپنا سر جھکا لیا یوں کہ وہ اب بہت تھک چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
The Renwick, Hotel in Manhattan, New York
(رینوک ہوٹل نیویارک کے شہر مڈ ٹاؤن من ہاٹن کے قلب میں واقع ہے۔ ایسٹ 40ویں اسٹریٹ پر واقع ، یہ ٹائمز اسکوائر ، گرینڈ سینٹرل ٹرمینل اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جیسے مشہور مقامات کے قریب ہے۔ اس کا مرکزی مقام اسے کارو باری اور تفریحی مسافروں دونوں کے لیے ایک مقبول انتخاب بناتا ہے ۔ اپنی جدید سہولیات اور تاریخی دلکشی کے امتزاج کے ساتھ، رینوک ہوٹل ہلچل سے بھرے شہر میں ایک آرام دہ ماحول فراہم کرتا ہے۔)
یہ منظر رینوک ہوٹل کے ایک کمرے کا تھا جو اس نے اپنے لیے بک کروایا تھا۔
وہ ہاتھ میں کافی کا کپ اٹھائے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔ کھڑکی کے پردے ہٹے تھے اور باہر سے آسمان پر پھیلے شام کے پرفتن رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔
تبھی نینا کے موبائل کی اسکرین روشن ہوئی۔ اس نے اپنے موبائل کو ساتھ رکھی میز پر سے اٹھایا۔ جب اس نے موبائل کی اسکرین پر کال کرنے والی شخصیت کا نام دیکھا تو اس کے چہرے پر خوشی تمتمانے لگی۔
نینا کی سب سے اچھی دوست، نینا کا ہمیشہ ہر مشکل میں ساتھ دینے والی خاتون اور ہمیشہ نینا کا بھلا چاہنے والی ، اس کی والدہ کی کال تھی۔
"اسلام و علیکم ! امی۔"
اس نے نہایت خوش دلی سے سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام! نینا کیا حال ہے تمہارا؟"
جواب بہت ہی نرم لہجے میں آیا۔
"امی میں بالکل ٹھیک ہوں الحمداللہ۔ آپ اور بابا کیسے ہیں؟ علی اور اریحہ کیسے ہیں؟"
اس نے ایک کے بعد ایک سوال بہت تیزی سے پوچھے۔ اس کی عادت تھی کہ جب بھی وہ بہت خوش یا پریشان ہوتی تو یوں ہی تیزی سے بولتی۔
"ہاں ! ہاں ! ہم سب بالکل خیریت سے ہیں۔ میں نے تم سے کہنا تھا کہ تم نے اقوام متحدہ میں تقریر بہت اچھی کی ہے۔ میں نے کچھ دیر پہلے ہی انسٹاگرام پر تمہاری تقریر سنی۔" انہوں نے اسے سراہا تو وہ تشکر سے بھرے لہجے میں مسکرائی۔
"بہت شکریہ امی۔"
"نینا ! مجھے بہت خوشی ہے کہ تم فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف بہت بہادری سے آواز اٹھاتی ہو لیکن بیٹی! اپنا بہت خیال رکھو۔ مجھے اور تمہارے بابا کو ہر وقت تمہاری فکر رہتی ہے۔"
اب کی بار ان کے لہجے میں فکر تھی۔
"امی آپ میری فکر مت کیا کریں۔مجھے اپنا خیال رکھنا آتا ہے۔ آپ بس اللہ سے میرے لیے دعا کیا کریں کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں۔" اس نے فوراً کہا۔
"نینا ! میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔" جواب ہمیشہ کی طرح نرم لہجے میں ہی آیا۔
"امی مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہے۔ میں آپ سے کچھ دیر بعد بات کروں گی اللہ حافظ۔"
دور دراز کی مساجد سے اذانوں کی آواز جب آنے لگی تو اس نے کہا۔
"اللہ حافظ ! اپنا خیال رکھنا۔"
"آپ بھی امی اپنا بہت خیال رکھیے گا۔"
اس نے حلیمہ صاحبہ سے کہا اور پھر فون رکھ دیا۔
(حلیمہ صاحبہ نے فون رکھ کر ایک گہرا سانس لیا۔ ان کی آنکھوں میں نمی خوب واضح تھی۔ نینا کے اکژ یوں دوسرے ممالک کے وزٹ ہوتے رہتے۔۔ اور اس کے ہر مرتبہ یوں چلے جانے پر حلیمہ صاحبہ پریشان رہتیں۔
آخر وہ ماں تھیں۔۔ اپنی بیٹی کی دوری وہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں؟
لیکن پھر بھی وہ نینا کو کبھی فورس نہیں کرتی تھیں کہ وہ ان کی وجہ سے گھر رک جائے۔ ۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ نینا ان کا سر کبھی نہیں جھکائے گی!۔)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تینوں دمیر صاحب کا انتظار کر تے ہوئے اب کافی تھک چکے تھے۔ وہ ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ وقت کافی گزر چکا تھا۔ شام کے سائے بس سمٹنے والے تھے۔
"آخر دمیر صاحب کیوں نہیں آئے ابھی تک۔"
ایلدار نے اکتاہٹ سے بھرے لہجے میں کہا۔ سامنے بیٹھے دونوں افراد یہ سن کر خاموش رہے۔ اس کا جواب ان دونوں کے پاس نہیں تھا۔
"ایلدار خاموش ہوجاؤ دمیر صاحب آگئے ہیں۔"
براق نے دور سے آتے ایک شخص کو ان کی میز کے سامنے آتے دیکھا تو ایلدار سے کہا اور وہ میز کے ساتھ رکھی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ایلدار اور احمت نے بھی جیسے ہی دمیر صاحب کو اپنے تک آتا دیکھا تو وہ بھی فوراً کھڑے ہو گئے۔
سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس وہ ادھیڑ عمر شخص ان تک آئے اور انہیں سنجیدگی سے دیکھا۔ سیاہ گلاسز پہننے کے باوجود بھی ان کی آنکھوں کی چمک خوب واضح تھی۔
"مرحبا ! آئیے دمیر صاحب بیٹھیے۔"
براق نے انہیں سنجیدگی سےسلام کرتے ہوئے کہا۔ وہ جواب میں کچھ کہے بغیر کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھنے کے بعد وہ تینوں بھی اپنی نشستوں پر بیٹھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔ آسمان پر شام کے گہرے رنگوں کا بسیرا تھا۔
وہ فرش پر جائے نماز پھیلائے نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔ فرش کا رنگ سمندر کی طرح نیلا تھا ۔۔بالکل صاف اور شفاف۔
نماز میں سلام پھیرنے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے اٹھائے۔
"میرے اللہ! آپ رحمٰن ہیں ۔ آپ رحیم ہیں۔ رحیم و کریم ہیں۔ آپ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا بہت بہت شکریہ۔ " دعا کی شروعات وہ ہمیشہ اللہ کی حمد و ثناء سے کرتی۔
"اللہ تعالیٰ میرے دل کا حال صرف آپ ہی جانتے ہیں۔" اس نے وقفہ لیا۔
"اللہ ! جب لوگ مجھے بار بار خوف دلاتے ہیں اس بات کا کہ اگر میں باطل کے خلاف حق کی آواز اٹھاؤں گی تو مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ میں تب صرف یہی سوچتی ہوں کہ جب زندگی اور موت آپ کے ہاتھ میں ہے تو میں کیوں آپ کے علاوہ کسی اور سے ڈروں۔" اس کی بڑی سیاہ آنکھوں میں نمی اتر آئی جیسے کسی صاف اور شفاف شیشے کے اوپر نمی کی ایک لہر ابھر آئی ہو۔
"اللہ ! میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادیں۔ میری تمام غلطیوں کو معاف فرما دیں۔"
"مجھے ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر آپ کا انعام ہوا، اور مجھے ان لوگوں کی راہ سے ہمیشہ محفوظ رکھ جن پر آپ کا غصہ ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔"
اس کی آنکھیں اب برسنے لگی تھیں۔ نماز میں جب بھی وہ اللہ کے سامنے دعا کے لیے پیش ہوتی تو یوں ہی اس کی آنکھیں برستیں۔
( آنکھوں کا اللہ کے سامنے برسنا ہی انسان کو اس دنیا میں اورآخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔)
"اللہ مجھے ہمیشہ ثابت قدم رکھنا۔مجھے تمام گناہوں سے بچا اور جو میرے حق میں بہتر ہے وہ میرے حق میں فرمادے۔ آمین۔" اس نے اپنی دعا کا اختتام کیا۔
نماز پڑھنے کے بعد اس کے چہرے پر سکون اور خوشی کی روشنی آشکار تھی۔ یہ سکون اور خوشی اسے ہمیشہ تب ہی ملتی جب وہ نماز ادا کرتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تینوں ان کی بات کافی سنجیدگی سے سن رہے تھے۔ جب سے وہ آئے تھے تب سے وہ سٹیز نشانتاشا کے بارے میں ہی گفتگو کیے جا رہے تھے۔ مگر اب وہ اصل بات کی جانب بڑھیں۔
"صرف دندار بے کے کہنے پر میں نے تم تینوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ دندار بے نے کہا تھا کہ تم تینوں بہت قابل فوجی ہو۔ " انداز اب کافی سنجیدہ تھا۔ یوں لگا کہ اب وہ ان تینوں کو بہت سی باتیں سنانے والے تھے جو ان کے اوپر ناگوار گزرتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
"آج میں یہ بتانا چاہوں گا کہ دندار بے بالکل ٹھیک تھے۔" اب کی بار ان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ ان تینوں کے چہروں پر بھی خوشی کے تاثرات ابھرے۔
"بہت شکریہ دمیر صاحب۔"
براق یامان نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔
"تم تینوں کے لیے میرے پاس ایک بہت اہم خبر ہے۔"
دمیر صاحب کچھ سنجیدہ ہوئے ۔
"وہ کیا ؟" احمت نے فوراً پوچھا۔
"وہ شخص جس نے سٹیز نشانتاشا شاپنگ مال میں ٹائم بم لگوایا۔۔" وہ کہہ رہے تھے تو ان تینوں کے ماتھے پر بل آشکار ہوئے۔
" وہ شخص جو کہ ہمارا اور ترکی کا سب سے بڑا دشمن ہے، اس شخص کا نام معلوم ہوگیا ہے۔" انہوں نے اپنی بات کا اختتا م کیا اور ایک گہری سانس لی۔ براق کی آنکھوں میں ایک سرخی کی لہر ابھری۔
"آخرکون ہے وہ ظالم انسان ؟"براق کے پوچھنے سے پہلے ہی ایلدار نے ایک ہاتھ کی مٹھی بھینچتے ہوئے سوال کر ڈالا۔
"اس ظالم کا نام ہے "مرات" ۔" دمیر صاحب نے چند لمحے بعد جواب دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کے گہرے سائے ہر طرف پھیلے تھے۔ چاروں اطراف میں آسمان تک پہنچنے والے قدیم اور گھنے درختوں کا جال بچھا تھا جس وجہ سے چاند کی روشنی ٹھیک سے پر نہیں پھیلا پا رہی تھی۔
"میں کہاں ہوں؟"
جامنی رنگ کا لباس اور سیاہ سکارف میں ملبوس نینا احسن نے ناسمجھی سے ارد گرد دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا۔ وہ اس کے لیے ایک انجان جگہ تھی جہاں وہ اب موجود تھی۔ یہ ایک جنگل تھا۔
"نینا۔" اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی۔
وہ یک دم ڈر سی گئی کیونکہ اس گھنے جنگل میں اس کے سوا اور کوئی شخص موجود نہ تھا۔
چاند کی روشنی کی ہلکی سی لکیر درختوں سے گزر رہی تھی جس وجہ سے اسے ارد گرد کے مناظر دکھائی دے رہے تھے۔
اچانک فضائیں تیز ہو گئیں ۔۔بہت تیز۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بھی ان فضاؤں کی رفتار کی طرح ہی تیز ہونے لگیں ۔ چہرے پر ناسمجھی اور خوف اب مزید بڑھ گیا۔
اور پھر اسے اطراف میں سے بہت سے لوگوں کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔
"آخر کون ہے یہاں؟"
اس نے گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہوئے چیخ کر کہا۔ چاروں اطراف میں اس کے یوں چیخ کر بولنے کی آواز گونجنے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭