یہ جنگل کس کا ہے میرا خیال ہے میں جانتا ہوں
اگرچہ اس کا گھر گاؤں میں ہے
وہ مجھے یہاں رکتا ہوا نہیں دیکھے گا
نہ ہی اپنا برف سے بھرا ہوا جنگل دیکھنے آئے گا
یہ میرے چھوٹے سے گھوڑے کو بڑا عجیب لگتا ہے
جنگل کے پاس فارم ہاؤس کے بغیر رکنا
جنگل اور منجمد جھیل کے درمیان
سال کی تاریک ترین شام کو
وہ اپنے ساز کی گھنٹیوں کو زور سے ہلاتا ہے
یہ پوچھنے کے لیے کہ آیا یہاں رکنا ہماری غلطی تو نہیں
اور آنے والی مزید آوازیں تو بس
ہلکی ہوا کے چلنے اور برف کے نرم گالوں کی ہیں
جنگل دلکش، تاریک اور گھنا ہے
لیکن مجھے وعدے نبھانے ہیں
اور سونے سے پہلے مجھے میلوں دور جانا ہے
اور سونے سے پہلے مجھے میلوں دور جانا ہے۔
(روبرٹ فروسٹ کی نظم )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ ہی ٖ فاصلے پر سے اب گرج چمک کی آواز سنائی دے رہی تھی جو جلد ہی آنے والے برفانی طوفان کا پیغام پہنچا رہی تھی۔ افق پر گہرے بادل چھانے لگے اور چاند ان گہرے بادلوں کے سائے میں ڈوبنے لگا۔ ارد گرد تیز ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں جس کے باعث اس کی ریڑھ کی ہڈی تک کانپ اٹھی۔
اور پھر برفباری کی شدت سے اچانک آسمان تیز رفتاری سے گونج اٹھا۔ موٹے موٹے فلیکس آسمان سے گر رہے تھے۔ یہ سب بہت سحر انگیز سا تھا۔ وہ وہیں ساکت سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ارد گرد موجود گھنے درخت برف کے بوجھ تلے دب رہے تھے۔
اس نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے اور اس گھنے جنگل میں آگے بڑھنے شروع کیا۔ وہ ارد گرد نظریں دہراتی نا سمجھی سے چل رہی تھی۔ ٹھنڈ کے باعث اب اس کا جسم کپکپانے لگا تھا۔ اور اس سردی کی شدت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔
برفباری کے اس شور میں اب دور سے آتی بھیڑیوں کی چیخوں کی آواز کا بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کے کانوں تک جب ان بھیڑیوں کی آواز پہنچی تو وہ جہاں تھی وہیں رک گئی۔ خاموشی سے سامنے دیکھنے لگی۔ سامنے سیاہ گہرے سائے تھے جس میں برفباری کی شدت اس منظر کو دھندلا رہی تھی۔ وہ آوازیں ادھر سے ہی آ رہی تھیں۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔
وہاں اس کے سامنے گھنے درختوں کے درمیان سے بھیڑیوں کا ایک گروہ آتا ہوا اسے دیکھ کر رک گیا۔ وہ ان سے کچھ فاصلے پر ہی کھڑی تھی۔
تمام بھیڑیوں کی نظریں نینا پر تھیں۔
اس نے وہاں سے بھاگ جانے کی بجائے ادھر ادھر نگاہ دہرانا شروع کی کہ شاید یہاں اسے کچھ اپنی مدد کے لیے مل جائے۔
دائیں جانب دیکھنے پر اسے ایک درخت کی ٹوٹی ہوئی لکڑی دکھائی دی۔ وہ زمین پر اس سے بالکل کچھ ہی فاصلے پر گری تھی۔ وہ چھوٹے قدم چلتی اس لکڑی کے قریب گئی۔ ایک نظر اس لکڑئی پر تھی تو ایک نظر ان بھیڑیوں پر۔اس کی دل کی دھڑکنیں بہت تیز تھیں۔
اس نے جھک کر وہ لکڑی اٹھائی تو وہ بھیڑیے یہ دیکھ کر فوراً اس کی جانب بڑھیں اور ایک ایک کر کے انہوں نے اس کے اوپر چھلانگ لگانا شروع کر دی۔ وہ گھاس پر گر گئی۔ ہاتھ میں لکڑی ابھی بھی موجود تھی۔
اس نے اپنے بچاؤ کی خوب کوشش کی مگر وہ بھیڑیے اپنے پنجوں سے اس کے چہرے اور جسم کو لہو لہان کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ تکلیف کے عالم میں چیخ رہی تھی مگر اس کی مدد کے لیے کوئی بھی شخص وہاں موجود نہ تھا۔
کچھ ہی لمحے بعد اس نے اپنے ہاتھ میں تھامی وہ درخت کی ٹوٹی ہوئی لکڑی ان میں سے ایک بھیڑیے کی آنکھ میں اپنی پوری قوت سے دے ماری اور وہ بھیڑیا فوراً بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا اور وہاں سے بھاگنے لگا۔
اس ایک بھیڑیے کو دیکھ کر باقی بھیڑیے بھی وہاں سے خوف زدہ ہو کر بھا گنے لگے۔
وہ گھاس پر زخمی حالت میں گری ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ، پاؤں اور چہرے میں سے بھیڑیوں کے نوکیلے ناخن لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا۔ برفباری اب مزید تیز ہو چکی تھی۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا مگر پھر بھی اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن وہ کھڑی نہیں ہو پائی۔
اس نے اپنے بائیں طرف موجود گھنے درخت کی ٹہنی کا سہارا لیتے ہوئے کھڑے ہونے کی کوشش کی اور وہ اس میں بہ مشکل کامیاب ہو گئی۔چند لمحے وہاں کھڑی رہی اور گہری سانس لی۔ اور پھر اس کی نظر درخت کے پیچھے گئی۔ اس کے چہرے پر موجود پریشانی اور گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا۔
مشکلات جیسے اس کے انتظار میں تھیں۔
اس درخت سے پیچھے ایک گہری کھائی تھی۔ دور دور تک پہاڑ تھے۔ ایسا نظارہ دیکھ کر اس کو چکر آنے لگے اور اس کا پاؤں ڈگمگا کر کھائی کی طرف کو پھسل گیا۔
اس نے تبھی اس درخت کی ٹہنی کو تھام لیا اور وہ کھائی میں گرنے سے بچ گئ۔ اب وہ حواس باختہ سی تھی اور اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے بھاگنا شروع کر دیا۔
وہ تیز قدموں کے ساتھ بھاگتے جا رہی تھی اور برف کا طوفان بھی بس تیز ۔۔ بہت تیز ہو رہا تھا، اتنا تیز کہ اب اس کا سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔
زمین ایک برف کا قالین بن چکی تھی۔ اس کے قدم کچھ فاصلہ طہ کرنے کے بعد رک گئے یوں کہ اب ان میں مزید چلنے کی قوت نہ تھی۔ اس کی نظر برف کے قالین پر گئی تو اسے وہاں کچھ دکھائی دیا۔ تیز برفباری کی وجہ سے سب مناظر دھندلے سے تھے۔ وہ آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے غور سے برف میں موجود اس شے کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"یہ! یہ تو کوئی پرندہ ہے۔"
اس نے زیر لب کہا۔ اس کی آواز میں گھٹن تھی۔
"کیا یہ چکور ہے؟"
اس پرندے کو چند لمحے مزید غور سے دیکھنے کے بعد اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
وہ پرندہ برف کی قید میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ یہ سب بالکل ساکت سی کھڑی دیکھ رہی تھی۔
اور پھر
الارم کلاک کی گھنٹی بجنے کی آواز نے اسے نیند کے آغوش سے جگا دیا۔
اپنے آپ کو رینوک ہوٹل میں اپنے بک کروائے گئے کمرے کے بیڈ پر پاکر نینا یہ سمجھ گئی کہ وہ سب مناظر ایک خواب کے تھے۔ ایک عجیب خواب کے ۔اس کے چہرے پر ابھی بھی ناسمجھی۔۔خوف۔۔ اور بے یقینی کے تاثرات موجود تھے۔
اس نے سائیڈ ٹیبل سے الارم کلاک اٹھائی اور اسے بند کیا۔ پھر وقت دیکھا۔
وہ اسی وقت بیڈ سے اٹھ گئی۔ فجر کی نماز کا وقت تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تینوں دمیر صاحب کی گفتگو نہایت متوجہ ہو کر سن رہے تھے۔
"سنا ہے کہ مرات بہت خطرناک ہے۔"
دمیر صاحب نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے ان تینوں سے سنجیدہ انداز میں کہا۔
(سامنے رکھی میز پر کافی کے چار مگز پڑے تھےجن میں اب کافی موجود نہیں تھی۔ وہ چاروں کافی پی چکے تھے۔)
(بہت دلکش، خوبصورت اور ایک محل جیسا گھر۔ دیواروں پر ہر طرف خوبصورت تصویریں۔ سیڑھیاں سرخ کارپٹ سے ڈھکی تھیں۔
سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہی دائیں طرف ایک انتہائی وسیع اور خوبصورت بیڈ روم تھا۔سنگھار میز کے سامنے ایک دراز قد آدمی کھڑا تھا۔ اس نے اپنے سر پر ایک بھوری ہیٹ پہن رکھی تھی۔
سیاہ جیکٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس اس شخص نے ایک سیاہ کپڑے کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں تھاما۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں ایک چمک ابھری اور ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ۔)
"مرات کی کوئی تصویر نہیں ہے کیا۔"
احمت نے پوچھا تو اس کے دل میں یہ امید ضرور تھی کہ "مرات" کی کوئی تصویر تو ضرور ہو گی۔
"نہیں ! اس ظالم کی کوئی تصویر نہیں ہے۔"
انہوں نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"لیکن کیوں؟" براق نے فوراً اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ہوئے پوچھا۔
(مرات نے اپنا چہرہ اس سیاہ کپڑے کے ٹکڑے کے ساتھ اس طرح سے ڈھکا کہ صرف اس کی دو آنکھوں کے سوا اور کچھ آشکار نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے آپ کو یوں سنگھار میز کے شیشے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھی۔)
"کیونکہ ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جہاں جاتا ہے۔۔"
دمیر صاحب نے چند لمحے کا وقفہ لیا۔ وہ تینوں انہیں سننے کے منتظر تھے۔
"وہ جہاں جاتا ہے وہاں اپنے چہرے کو ایک سیاہ کپڑے سے چھپائے رکھتا ہے جس وجہ سے اس کو پہچاننا بہت مشکل ہے۔میرے پاس اس کی ایک یہی تصویر ہے۔"
دمیر صاحب نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک تصویر نکالتے ہوئے کہا۔ وہ تصویر انہوں نے براق کی جانب بڑھائی۔ اس نے وہ تصویر اپنے ہاتھ میں فوراً تھامی اور اسے چند لمحے غور سے دیکھا۔
(وہ تصویر کسی ویران اور بنجر سی عمارت کی لگ رہی تھی۔ ایسی عمارت جس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہاں صدیوں سے کوئی نہیں گیا۔)
"کون یقین کرے گا کہ یہ ویران عمارت کبھی ایک شاپنگ مال ہوا کرتی تھی۔ "
دمیر صاحب نے افسوس سے براق کے ہاتھ میں اس تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
(اس تصویر میں اس ویران عمارت کے سامنے ایک شخص چہرے پر سیاہ کپڑا ڈالے اور ایک سیاہ لمبا کوٹ پہنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پستول تھی۔
"پتا نہیں کیوں مگر مجھے ایسا لگتا ہے یہ ہیٹ میں نے پہلے کہیں دیکھی ہے۔"
مرات کی پہنی ہوئی بھوری ہیٹ کو دیکھتے ہوئے براق زیر لب بڑبڑایا۔ احمت اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"کیا آپ نے کچھ کہا ؟" احمت کے پوچھنے پر براق نے نفی میں سر ہلایا۔
"یہ تصویر ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔"
دمیر صاحب نے چند لمحے بعد کچھ مایوس کن انداز میں کہا۔
"مجرم تک پہنچنے کے لیے میرے لیے یہی ایک تصویر کافی ہے۔"
براق نے کافی پر اعتماد اندا ز میں اس تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی نیلی آنکھوں کی چمک اور پر اعتماد انداز کو دیکھ کر دمیر صاحب حیران رہ گئے۔
(وہ شاید یہ بھول رہے تھے کہ یہ الفاظ براق یامان نے کہے تھے!
وہ براق یامان جو سب کو حیران کر دینے میں ماہر تھا۔)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاریخ تھی 12 جنوری، 2022۔
سورج کی تیز روشنی نے اپنے پر ہر سو پھیلائے ہوئے تھے۔ آسمان پر سورج کے ساتھ ساتھ روئی جیسے بادلوں کا جال بھی بھچا تھا جس وجہ سے ارد گرد ہلکی سی ٹھنڈی ہوا بھی رقص کر رہی تھی۔
چاروں اطراف میں اونچے لمبے درخت موجود تھے جو سورج کی روشنی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ درمیان میں ہی ایک چھوٹا سا کاٹیج (چھوٹا گھر) موجود تھا جہاں سے کافی شور آ رہا تھا۔
"مجھے جلدی وہ فائلز ڈھونڈ کر دو کہیں وہ یہاں پہنچ نہ جائے۔"
اس کاٹیج میں موجود ایک بوڑھا آدمی اپنے سامنے کھڑے شخص سے بہت بے چینی اور پریشانی کے عالم میں کہہ رہا تھا۔
"آپ فکر کیوں کرتے ہیں بابا! آپ کی فائلز مل جائیں گی۔"
سامنے کھڑا شخص الماری کی جانب بڑھتے ہوئے انہیں تسلی دے رہا تھا۔ اس نے الماری کھولی ، چند لمحے اس میں موجود چیزیں ادھر ادھر کیں اور پھر اسے مطلوبہ فائلز مل گئیں۔ اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی۔
"ابا میں نے کہا تھا نا کہ فائلز مل جائیں گی۔"
اس نے وہ فائلز اس بوڑھے شخص کی جانب بڑھاتے ہوئے کافی فاتحانہ انداز میں کہا۔
"شکر ہے اللہ کا کہ یہ فائلز مل گئیں۔ آیاز بیٹے !تم جانتے ہو اگر یہ فائلز نہ ملتیں تو۔۔"
وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے ۔ کاٹیج کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ وہ دونوں بے یقینی سے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"بابا آپ رکیے میں دیکھتا ہوں کون ہے۔"
آیاز یہ کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا، ایمرے بے نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر کچھ کہہ نہ پائے۔ آیاز نے دروازے کا لاک آہستگی سے کھولا اور باہر نکلا۔ ارد گرد نگاہ دہرائی تو کوئی نظر نہ آیا۔ اس کے دل کو اطمینان سا ملا۔
"بابا یہاں تو کوئی نہیں ہے۔"
کاٹیج میں اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔ یہ سن کر جیسے ایمرے بے کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک کرنٹ سا دوڑا۔ یہ جیسے ایک اچھا سگنل نہیں تھا۔
"آیاز ! وہاں سے ہٹ جاؤ۔"
ایمرے بے چلائے۔ آیاز نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا ، دور سے گولی چلنے کی آواز گونجی اور وہ گولی سیدھا آیاز کے سر پر لگی۔ وہ اسی وقت زمین پر گر گیا۔ اس کے سر میں سے بہتا ہوا خون دیکھ کر ایمرے بے کے ہاتھ میں موجود فائلز زمین پر گر گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سنگھار میز کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ وہ اپنے لمبے اور گھنے سیاہ بال ایک طرف کو کیے ان پر آہستگی سے کنگی کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آج ناسمجھی اور پریشانی کی ملی جلی لہریں موجود تھیں۔ وہ ایک حسین اور دلکش سبز رنگ کے لانگ فراک میں ملبوس تھی۔
"آخر اس خواب کا کیا مطلب تھا؟"
وہ دل ہی دل میں یہ سوال اپنے آپ سے کئی مرتبہ کر چکی تھی لیکن اس کا جواب اسے اب تک نہیں مل سکا تھا۔ اس کے موبائل کی سکرین روشن ہوئی تو اس نے موبائل کو سنگھار میز پر سے اٹھایا۔
"اوہ ! انسٹاگرام پر کامنٹس۔
وقت ہی نہیں مل سکا کامنٹس دیکھنے کا۔"
اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ انسٹاگرام کا کامینٹ سیکشن کھولنے کے بعد اس نے باری باری سارے کامنٹس پڑھنا شروع کیے۔ ایک کے بعد ایک کامنٹ اس کے چہرے پر خوشی اور امید لا رہا تھا۔ کامینٹ سیکشن کشمیر اور فلسطین کے ٹاپک سے بھرا ہوا تھا۔
سب کامنٹس کشمیر اور فلسطین کی فیور میں تھے۔ وہ موبائل ہاتھ میں تھامے کھڑکی کی جانب بڑھی۔
اس نے موبائل بند کیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی جس وجہ سے کھڑکی پر بارش کے قطرے نمایاں تھے۔ نیویارک آج کاف حسین لگ رہا تھا۔
( ایسا موسم نینا کا سب سے پسندیدہ موسم تھا۔ تیز بارش میں بھیگتے ہوئے قدرت کے نظارے یقیناً کافی دلکش اور پرفتن ہوتے ہیں۔)
وہ یہ خوبصورت منظر خاموشی کے سائے میں ڈوب کر دیکھ رہی تھی جیسے اس منظر نے اسے اپنے سحر میں جکڑ لیا ہو۔
(اس دن بھی ایسا ہی موسم تھا۔ اسے اچھے سے یاد تھا۔
وہ اپنی زندگی کا وہ وقت آخر کیسے بھول سکتی تھی، جب اس کی زندگی بدلنا شروع ہوئی۔)
کچھ سال پہلے۔
یہ منظر ایک وسیع اور خوبصورت ہال کا تھا۔ پورے ہال میں ایک ترتیب کے ساتھ نشستوں کی قطاریں تھیں۔ سامنے ہی ایک اسٹیج کھڑا تھا جو سب کی توجہ اپنی طرف کھینچے ہوئے تھا۔ اسٹیج پر ایک کے بعد ایک طالب علم آ کر کوئی تقریر کرتا یا نغمہ وغیرہ سناتا اور ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھتا۔
اب اسٹیج پر روسٹرم کے سامنے کھڑی ایک لڑکی تقریر کر رہی تھی۔ زیادہ تر لوگ اب اس کی تقریر متوجہ ہو کر نہیں سن رہے تھے کیونکہ ہر کسی کو ایک ہی وقت کا انتظار تھا۔
امتحان کے نتائج کا!۔
اسلام آباد بارش کی بوندوں سے بھیگ رہا تھا۔ بارش اور مٹی کی خوشبو ماحول میں ارد گرد پھیلی تھی۔ درختوں کے پتے مسلسل بارش کے قطروں کو خود میں سمانے میں مگن تھے۔
تیز چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا دل کو تسکین پہنچاتی۔
سفید فراک میں ملبوس، سیاہ کندھے تک آتے بال جو ایک پونی میں بندھے تھے، وہ لڑکی اپنی نشست پر بیٹھی اپنے والد صاحب سے باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ اس کی بڑی سیاہ آنکھوں میں آج ایک خاص چمک تھی۔ چہرے پر یقین تھا ۔
"بابا! یہ لڑکی کب اپنی تقریر ختم کرے گی؟"
اسٹیج پر تقریر کرتی ہوئی شخصیت کو دیکھتے ہوئے نینا احسن نے بیزاری کے عالم میں کہا۔
"نینا صبر کرو تھوڑا سا۔"
احسن صاحب نے اس سے کہا۔
بابا مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا کہ کب۔۔"
وہ کہتے ہوئے رکی۔
"یہ اعلان کیا جائے گا کہ آٹھویں جماعت میں اول آئی ہیں نینا احسن!"
اس نے کافی پراعتماد انداز میں کہا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ مزید بڑھ گئی۔
"نینا خاموش ہو جاؤ۔ شور مت کرو۔"
احسن صاحب نے اسے تاکید کی ۔
"اوکے!۔"
اس نے شانے اچکا کر کہا۔
"ویسے کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ہی فرسٹ آؤگی؟"
یہ سوال حلیمہ صاحبہ نے اس سے کیا تھا۔ ان کا سوال سن کر وہ زیر لب مسکرائی۔
"امی ! مجھے پورا یقین ہے کہ میں ہی فرسٹ آئی ہوں گی۔"
اس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے گردن اونچی کر کے کہا۔
"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟"
سوال فوراً پوچھا گیا۔ ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
"کیونکہ میرے علاوہ اور کوئ فرسٹ آ ہی نہیں سکتا۔"
نینا نے ابرو اچکا کر کافی فخر سے کہا۔ یہ بات حلیمہ صاحبہ کو اچھی نہیں لگی کیونکہ یہ پر اعتمادی نہیں تھی۔
"ایسے نہیں کہتے نینا۔"
انہوں نے تھوڑا سنجیدہ ہو کر اس سے کہا۔
"اف! امی میرا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ دیکھ لینا آج بھی میں ہی فرسٹ ہوں گی۔"
حلیمہ صاحبہ نے اب کی بار اس سے کچھ نہیں کہا اور وہ اسٹیج کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
اسٹیج پر موجود لڑکی تقریر ختم کر کے اب جا رہی تھی۔ اس کے جانے کے بعد ایک رعب دار شخصیت اسٹیج پر آئیں اور روسٹرم کے سامنے کھڑی ہوئیں۔ وہ مس آمنہ تھیں۔۔ نینا کی سب سے پسندیدہ ٹیچر۔ نینا ان کی ہر بات کافی متوجہ ہو کر سنتی۔
"اسلام و علیکم! امید کرتی ہوں آپ سب خیریت سے ہوں گے۔"
انہوں نے اپنی بات کا آغاز کیا۔
" آج ہم سب کا یہاں پر اکٹھا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ جن طلباء نے بہت محنت سے امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے ان کا اعلان کیا جائے اور انہیں ان کی محنت کا صلہ دیا جائے۔ "
وہ نرم لہجے میں کافی گرم جوشی سے اپنی بات کہہ رہی تھیں۔
"امتحانات کا اعلان کرنے سے پہلے میں آپ سب سے کچھ کہنا چاہوں گی۔"
انہوں نے چند لمحے کا وقفہ لیا۔ نشستوں پر موجود تمام افراد ان کی طرف متوجہ تھے۔
" علامہ اقبال کو کون نہیں جانتا، ان کی شاعری نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا۔ان کے الفاظ قابل تعریف ہیں۔آج میں آپ کے ساتھ ان کے کچھ خوبصورت الفاظ شئیر کرنا چاہوں گی۔"
نینا کو اس وقت صرف امتحانات کے نتائج کا انتظار تھا۔ وہ اس وقت بس یہ چاہتی تھی کہ مس آمنہ جلدی سے اپنی باتیں ختم کریں اور امتحانات کے نتائج کا اعلان کریں۔
"علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
تو جاہل صوفی اور کم عقل ملا کی باتوں میں اس قدر آیا
کہ تونے قرآن سے ہدایت لینا ہی چھوڑ دیا۔"
مس آمنہ کہہ رہی تھیں تو ان کی آنکھوں میں کچھ خاص تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی نینا ان کے الفاظ کی جانب متوجہ ہوئی۔
"تجھے قرآن سے صرف اتنا سروکار رہ گیا
کہ جب تیرے بوڑھے کی روح اٹک گئی
تو، تو یٰس لے کر بیٹھ گیا۔۔"
انہوں نے ایک گہری سانس لی۔ نینا کا ذہن ان کے الفاظ کا تعقب کرنے میں گم سا تھا۔
"افسوس! کہ تونے قرآن سے صرف مرنا ہی سیکھا۔"
یک دم نینا کے دل پر ایک بوجھ سا پڑا۔ آنکھوں میں ایک ہلکی سی نمی اتر آئی۔ وہ ان کے الفاظ اب مزید غور سے سن رہی تھی۔
"کاش! جس قرآن سے تو نے مرنا ہی سیکھا
تو اس سے جینا بھی سیکھ لیتا۔"
انہوں نے اپنی بات کا اختتام کیا۔ اب وہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کرنے والی تھیں۔ وہ وقت آ گیا تھا جس کا نینا کو بہت انتظار تھا لیکن اب اس کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات کا بسیرا ہو چکا تھا۔ وہ امتحانات کے نتائج کے لیے اب پہلے کی طرح بے تاب نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس کے ذہن میں بہت سے سوالوں نے گھر کر لیا تھا۔
"کیا میں نے قرآن سے جینا سیکھا ہے؟" سوال اس کے ذہن میں ابھرا تو دل پر بوجھ مزید بڑھ گیا۔
" کیا میں قرآن میں بتائے گئے اللہ کے احکامات پر عمل کرتی ہوں؟" اگلا سوال اس کے ذہن کے پردوں پر جب ابھرا تو اس کی آنکھوں میں نمی مزید گہری ہو گئی۔
نہیں !ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں بس بہت زیادہ سوچ رہی ہوں۔"
اس نے خود کو تسلی دینا چاہی لیکن اس کا دل اور دماغ دونوں ہی کہیں رک سے گئے تھے ۔
"ایسا ہی ہے، یہ سچائی ہے، میں تو قرآن پاک کے احکامات کو ٹھیک سے جانتی ہی نہیں۔"
تسلی کا کوئی فائدہ نہ ہوا، جو سچ تھا اس کا اقرار اس کے دل نے کر دیا۔
"میں اللہ کے احکامات کے بارے میں جتنا جانتی ہوں ، وہ بھی میں نے بس لوگوں سے ہی سنا ہے۔ قرآن کس معاملے میں کیا کہتا ہے یہ مجھے معلوم ہی نہیں۔"
"کیا میں صرف نام کی مسلمان ہوں؟"
اس کے دل میں ایک دم ویرانی سی چھانے لگی۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ کسی سے دور تھی۔۔بہت دور۔
"اللہ تعالیٰ میں تو آپ سے بہت دور ہوں۔میں یہ فاصلہ کیسے ختم کروں؟"
اس کی آنکھیں برسنا چاہتی تھیں لیکن اس نے اس برسات کو روکا اور تب ہی اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے پکار رہا تھا۔
"Naina Ahsan! Please come on the stage to receive your award.
Please give a big hand to her.
She got 1st position in class 8th".
تالیوں کی گونج میں مس آمنہ نینا کو اسٹیج پر کافی گرم جوشی کے ساتھ بلا رہی تھیں۔
وہ موقع آگیا تھا جس کا نینا کو بہت انتظار تھا۔ لیکن اب اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اسے اس کامیابی کی کوئی ؒخوشی ہی نہیں۔
"نینا بیٹی جاؤ، تمہیں سب ا سٹیج پر بلا رہے ہیں۔"
احسن صاحب نے نینا سے کہا تو وہ اپنی کرسی سے اٹھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات کچھ بدلے۔ وہ اسٹیج کی جانب بڑھی۔ آنکھوں میں بہت کچھ تھا جو کوئی دیکھ لیتا تو یوں سمجھتا کہ اس کی آنکھوں میں موجود نمی یا آنسو اس خوشی کی بنا پر ہیں جو اسے اپنی کامیابی سے ملی ہے۔ مگر در حقیقت یہ آنسو تو تکلیف۔۔دکھ۔۔اور پچھتاوے کے تھے۔
اسٹیج پر مس آمنہ اور ان کے ساتھ کھڑی اسکول کی پرنسپل صاحبہ ایواڑد ہاتھ میں تھامے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
مس آمنہ بار بار روسٹرم کے سامنے کھڑے مائیک میں نینا کا نام پکار رہی تھیں۔
اس کے اسٹیج پر پہنچتے ہی مس آمنہ کے ساتھ کھڑی پرنسپل صاحبہ نے نینا کو ایوارڈ ہاتھ میں تھمایا۔ اس نے وہ ہاتھ میں پکڑا ایوارڈ دیکھا جس پر اس کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی نمی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس ایوارڈ کو اپنے ہاتھ میں دیکھ کر اس کا پچھتاوا مزید بڑھ گیا۔
" She is a very Hardworking Student.
There is no doubt in it that she is the Pride of our School."
مس آمنہ اب مائیک میں نینا احسن کی تعریفیں کر رہی تھیں لیکن نینا اس طرف متوجہ نہیں تھی۔ اسے اپنی تعریفیں سن کر کوئی خوشی بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اس کے دل و دماغ میں اس وقت علامہ اقبال کہ وہ الفاظ جو کچھ ہی دیر پہلے مس آمنہ نے کہے تھے، وہ سما چکے تھے۔
نینا نے نم آنکھوں کے ساتھ احسن صاحب اور حلیمہ صاحبہ کی جانب دیکھا ۔ ان کے چہروں پر خوشی کے تاثرات خوب واضح تھے۔ اس کی آنکھوں میں نمی کو دیکھ کر وہ یہ ہی سمجھے کہ یہ نمی اس کی کامیابی کی خوشی کی وجہ سے ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام آباد میں اب ہر جانب رات کے سیاہ گہرے سائے کا جال پھیل چکا تھا۔ آسمان پر چاند کی ٹکیہ گہرے بادلوں کے سائے میں چھپی ہوئی تھی ۔ نینا اپنے بیڈ روم میں موجود تھی۔ وہ کھڑکی سے باہر آسمان کو اداس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بال اب ڈھیلی سی پونی میں بندھے تھے۔ وہ ایک ہلکے گلابی رنگ کا فراک پہنے ہوئے تھی۔ اس کے گلابی گال اب سرخ ہو رہےتھے۔ وہ جب بھی پریشان یا اداس ہوتی تو اس کے گالوں پر سرخی کی لہریں ابھر آتیں۔
"آخر میں اللہ کے احکامات کے بارے میں کیسے جانوں؟"
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ دل ہی دل میں سوچا۔
"میں کیا کروں؟"
اس نے بے بسی کے ساتھ اپنے آپ سے سوال کیا۔ چند ہی لمحے بعد اس کے ذہن کے پردوں پر کچھ ابھرا۔ پہلے اس کی آنکھوں میں بے یقینی ۔۔ اور پھر حیرانی چھا گئی۔
"اوہ! میں کتنی بیوقوف ہوں۔ "
اپنا ہاتھ ماتھے پر مارتے ہوئے اس نے افسوس سے کہا۔ وہ فوراً اپنے کمرے باہر نکلی اور تیز قدم چلتی ہوئی حلیمہ صاحبہ کے پاس باورچی خانہ میں گئی۔
حلیمہ صاحبہ برتن دھونے میں مصروف تھیں۔ وہ سب رات کا کھانا کھا چکے تھے۔ اس نے چند لمحے انہیں دیکھا اور پھر کہنے کے لیے الفاظ ڈھوندے۔ حلیمہ صاحبہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ سے وہ برتن دھونے میں مصروف ہو گئیں۔
"امی ! آپ نے سارے سپارے وغیرہ کہاں رکھے ہوئے ہیں؟"
اس نے کافی پرجوش انداز میں پوچھا۔ یہ سوال سن کر حلیمہ صاحبہ کے چہرے پر ناسمجھی کی لہر ابھری۔ انہوں نے تھوڑا سوچا۔
"شیلف کے اوپر پڑے ہوئے ہیں۔"
اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا۔ وہ ابھی بھی ساتھ ساتھ برتن ہی دھو رہی تھیں۔
"امی وہ والے نہیں۔"
نینا نے فوراً کہا ۔
"پھر کون سے؟"
حلیمہ صاحبہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے ناسمجھی کے ساتھ پوچھا۔
"امی وہی سارے سپارے وغیرہ جو آپ نے ایک کارٹن میں رکھے ہوئے ہیں۔"
نینا نے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔ حلیمہ صاحبہ اب سارے برتن دھو چکی تھیں۔ وہ اب اس کی جانب مڑیں۔
“اچھا وہ! وہ کارٹن تو میں نے سٹور روم کی الماری کے اوپر رکھا ہوا ہے۔"
انہوں نے چند لمحے بعد کہا تو نینا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔
"اوکے! تھینک یو امی۔"
وہ یہ کہتے ہوئے تیز قدم چلتی باورچی خانہ سے باہر چلی گئی۔
"لیکن تمہیں اس کارٹن میں سے کیا چاہیے؟"
انہوں نے تھوڑا بلند آواز میں پوچھا لیکن تب تک نینا وہاں سے جا چکی تھی۔
"اللہ! اس لڑکی کو ہدایت دے۔ ہونہہ۔"
وہ نینا کے یوں ان کی بات کا جواب دیے بغیر چلے جانے پر افسوس سے سر ہلاتی ہوئیں دوبارہ اپنے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ منظر سٹور روم کا تھا۔ وہ وہاں موجود تھی۔ اس نے ایک کرسی الماری کے سامنے رکھی ہوئی تھی اور وہ اس کرسی پر کھڑی ہو کر الماری کے اوپر چیزیں ادھر ادھر کر رہی تھی۔
چند لمحے تک چیزیں ادھر سے ادھر کرنے کے بعد وہ تھک سی گئی۔ لیکن اسے امید تھی کہ اسے وہ کارٹن ضرور مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی امید تھی کہ اس کارٹن میں اسے ترجمے کے ساتھ قرآن مجید بھی ضرور ملے گا۔ اس نے دوبارہ الماری کے اوپر چیزیں ادھر ادھر کرنا شروع کیں تو اب کی بار چندہی لمحے بعد اس کے ہاتھ ایک کارٹن لگا۔ اس پرکافی دھول مٹی جمع تھی۔
اس نے وہ کارٹن اٹھانے کی کوشش کی۔ وہ کارٹن کافی بھاری تھا لیکن پھر بھی اس نے اسے اٹھا لیا۔
وہ اس کارٹن کو اٹھاتے ہوئے کرسی سے نیچے اتری۔
سامنے ہی کچھ ڈبے پڑے تھے جن پر اس نے اس کارٹن کو رکھ دیا۔
اس کارٹن کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا کہ جیسے اسے صدیوں سے کسی نے کھولا ہی نہیں۔ اس نے اس پر موجود دھول مٹی کو ایک کپڑے سے صاف کیا اور پھر اسے کھولنا شروع کیا۔
جب وہ کارٹن کھلا تو نینا کے معصوم چہرے پر ایک دم خوشی کے بہت سے تاثرات ابھرے۔ اسے یقین تھا کہ یہاں وہ جسے ڈھونڈ رہی ہے وہ اسے ضرور ملے گا۔
وہ ایک ایک کر کے ہر کتاب کو دیکھنے لگی۔
ہر کتاب کسی خاص عنوان کے اوپر لکھی گئی تھی جیسے گواہی کے احکام، قسم کے احکام اور انسانوں کے حقوق وغیرہ۔ وہ کچھ دیر تک یوں ہی ساری کتابیں نکال کر دیکھتی رہی۔ اس نے اپنی تلاش جاری رکھی۔ لیکن اسے وہ نہ مل سکا جس کی اسے تلاش تھی۔
اسے یک دم کچھ مایوسی ہوئی۔ دل کے کسی کونے میں اسے ایسا محسوس ہوا کہ یہاں اسے ترجمے کے ساتھ قرآن مجید نہیں مل پائے گا تو اسے اپنی تلاش اب روک دینی چاہیئے۔
اس نے ایک نظر کارٹن میں دہرائی جس میں اب صرف کچھ ہی کتابیں باقی تھیں۔ اس نے اس میں سے ایک کتاب نکالی۔
وہ کتاب تھی وراثت کے احکام پر۔اس کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔
اس نے اس کتاب کو ایک طرف موجود ایک ڈبے پر رکھا اور چند لمحے بعد اس کارٹن میں دوبارہ دیکھا۔
وہاں تین کتابیں موجود تھیں۔ وہ سب سے اوپر پڑی سبز رنگ کی کتاب کو دیکھنے لگی۔
اس کتاب پر سفید رنگ میں کچھ لکھا تھا۔
"تفسیر القرآن ! ، جلد نمبر 1۔"
اس نے اس کتاب کی سبز جلد پر لکھے گئے روشن الفاظ کو زیر لب پڑھا۔
پہلے وہ حیران ہوئی اور پھر اس کی حیرانی خوشی اور شکر میں تبدیل ہو گئی۔ اسے قران مجید ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ مل گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ اس مقدس کتاب کی جانب بڑھائیں لیکن پھر اسے یاد آیا کہ یہ کوئی عام سی کتاب نہیں ہے جسے یوں ہی ہاتھ میں تھام لیا جائے۔ اس کو ہاتھ میں تھامنے کے لیے انسان کا پہلے باوضو ہونا ضروری ہے۔
اس نے اس کتاب کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ آج اسے ضرور پڑھے گی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جب اس نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے بیڈ روم میں موجود تھی۔ وہ صوفے پر بیٹھی تھی اور اس کے سامنے ایک میز پڑی تھی۔
اس نے اپنے سر پر ایک دوپٹہ لے رکھا تھا۔ آنکھوں میں بہت کچھ تھا۔چہرے پر ایک امید تھی۔
اس وقت جب اس کے گھر کے ہر کمرے کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں، صرف اس کا کمرہ روشن تھا۔ کھڑکی پردوں سے ڈھکی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود ٹھنڈی ہوا کی لہریں اس میں سے گزر کر کمرے میں ہر سو پھیل رہی تھیں۔
اس نے میز پر قرآن کی تفسیر کو احترام کے ساتھ رکھا۔۔ وہ تفسیر رہل میں موجود تھی۔ کمرے کا دروازہ اس نے لاک کر رکھا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی اسے دیکھے اور یہ سوال کرے کہ اچانک اس نے قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا کیوں فیصلہ کیا؟ اچانک یہ تبدیلی اس میں کیسے آئی؟
ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ کہیں کسی کی تعریف یا ستائش اس کی اس "عبادت" کو ریا کاری میں نہ تبدیل کر دے۔
(جب عبادت کا مقصد دوسروں کی تعریف اور ستائش حاصل کرنا بن جائے تو وہ "عبادت" نہیں بلکہ "ریاکاری" بن جاتی ہے۔)
خیر اس نے تمام سوچوں کو اپنے ذہن سے دور بھگایا اور حاضر دماغی کے ساتھ قرآن کی تفسیر کا پہلا صفحہ کھولا۔ صفحہ کے سب سے اوپر تعوذ لکھا تھا۔ اس نے چند لمحے بعد تعوذ پڑھنا شروع کیا۔
"میں پناہ مانگتی ہوں اللہ کی شیطان مردود کے شر سے۔"
تعوذ پڑھنے کے بعد اس نے اس کا ترجمہ پڑھا۔
اس کمرے میں ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ ایسا سکون جو اب اس کے دل میں بھی بھر چکا تھا۔ ایسا سکون اس کے دل کو پہلے کبھی میسر نہ ہوا۔
( کھڑکی سے باہر آسمان پر اب بادلوں کے گرجنے کی آواز گونج رہی تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ کچھ ہی دیر بعد یہ بادل اپنے پورے زور و شور سے برس پڑیں گے۔)
صفحے پر اب تعوذ کے نیچے کی سطروں پر تعوذ کی تفسیر تحریر تھی۔ اس نے ایک نظر اس کی تفسیر پر ڈالی اور پھر اسے پڑھنا شروع کیا۔
"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جب آپؐ قرآن پڑھنے لگیں تو اللہ تعالیٰ سے شیطان مردود کی پناہ طلب کیجیے ۔" وہ ہر لفظ پر انگلی پھیرتے ہوئے زیر لب پڑھ رہی تھی۔
"پناہ کے معنی ہیں محفوظ رکھنا۔ پناہ کسی دشمن سے یا پھر کسی نقصان پہنچانے والی چیز سے مانگی جاتی ہے۔"
"شیطان سے پناہ کے معنی ہیں شیطان سے حفاظت۔ چونکہ شیطان غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے اس سے پناہ مانگی جاتی ہے۔"
وہ کافی متوجہ ہو کر تفسیر پڑھ رہی تھی اور اسی دوران اس کے ذہن کے پردوں پر ایک سوال ابھرا۔
" آخر اس کا کیا مطلب ہوا کہ شیطان انسان کی فکر پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتا ہے؟ "
سوال نے اسے چند لمحوں کے لیے تفسیر پڑھنے سے روکا۔ اس نے تفسیر پر سے نظریں ہٹا کر اپنے کمرے کی کھڑکی کی جانب دیکھا۔ چند لمحے ساکت سی بیٹھی اس سوال کے بارے میں سوچتی رہی ۔ اور پھر اس نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ اپنے تمام سوالوں کے جواب یہ تفسیر پڑھنے کے بعد خود ڈھونڈے گی۔ اس نے کھڑکی کی جانب سے نظریں ہٹائیں اور دوبارہ اپنی توجہ تفسیر پڑھنے پر کی۔
"اللہ کی پناہ کے معنی ہیں اللہ کی طرف سے حفاظت۔"
"کسی دشمن سے یا کسی بھی نقصان پہنچانے والی چیز سے پناہ دینے والی ہستی دشمن کی طاقت سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔"
"چونکہ شیطان ہم سب انسانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس لیے شیطان سے پناہ مانگی جاتی ہے۔"
"اور اللہ تو وہ ہے جس کے سامنے یہ شیطان اور کسی بھی شے کی کوئی طاقت۔۔ کسی کام کی نہیں۔" اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔
(اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک تعوذ جو کہ ہر مسلمان بچپن سے پڑھتا آرہا ہے، اس پر غور و فکر کرنے پر ہمیں کتنی زیادہ معلومات ملتی ہیں ۔)
اور پھر اس کے ذہن کے پردوں پر ایک اور سوال ابھرا۔
"اگر قرآن کی ہر بات میں اتنی زیادہ معلومات ہیں تو یہ باتیں ہمیں ہمارے والدین یا ہمارے اساتذہ کرام وغیرہ کیوں نہیں بتاتے؟" سوال نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
"انہیں شاید ان باتوں کا پتا نہیں ہے۔ لیکن کیوں؟" اگلے سوال نے اسے مزید سوچنے پر مجبور کیا۔
("آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے والدین یا اساتذہ کرام ہمیں اس طرح سے قرآن کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے؟ " جواب وہ کچھ ہی دیر بعد سمجھ گئی تھی جس پر اسے کافی افسوس بھی ہوا۔)
"اف نینا! جسٹ فوکس!"
اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا اور واپس تفسیر کی جانب متوجہ ہوئی۔
اس نے تسمیہ پڑھنا شروع کی۔
"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔"
تسمیہ کی عربی کے بعد اس کا ترجمہ تحریر تھا۔۔ عربی اور ترجمہ پڑھنے کے بعد اس نے جب تسمیہ کی تفسیر کے اوپر نظر دہرائی تو وہ حیران رہ گئی۔
("تسمیہ کی اتنی لمبی تفسیر!۔" وہ یقیناً کافی حیران تھی۔)
("اس میں کتنی زیادہ معلومات ہوں گی۔" اس نے دل ہی دل میں کہا۔)
"حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نماز کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل نہ ہوتی۔"
"بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت کے ساتھ نازل ہوئی ہے (ماسوائے سورۃالتوبہ ) اور یہ سورۃ نمل میں دو بار آئی ہے اس طرح اس کا نزول 114 بار ہوا ہے۔
"سورۃالفاتحہ کی سات آیات ہیں اور یہ سات آیات تب ہی مکمل ہوتی ہیں جب بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورۃ الفاتحہ کا جز قرار دیا جائے۔"
وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی۔
اس نے پھر زیر لب سورۃ الفاتحہ پڑھی اور اس کی ہر آیت کو تسمیہ سمیت اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر گنا۔ تسمیہ سمیت ہی سورۃ الفاتحہ کی آیات "سات" بنتی تھیں۔
اسے یہ تو معلوم تھا کہ ہر سورت کی تلاوت کرنے سے پہلے تسمیہ پڑھنی لازم ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ہر سورت کا حصہ ہے۔
چند ہی لمحے بعد اس نے اگلی آیت پڑھنا شروع کی۔
"ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔"
اس آیت کی تفسیر سے پہلے سورۃ الفاتحہ کا تعارف لکھا تھا۔
"الفاتحہ کے معنی ہیں دیباچہ۔"
" دیباچہ کے معنی ہوتے ہیں شروعات۔"
اس کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھی۔
"شروعات! کس چیز کی شروعات؟"
سورۃ الفاتحہ کے معنی جان کر اس نے زیر لب اپنے آپ سے سوال کیا۔ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر جواب تک نہ پہنچنے پراس نے تفسیر کو پڑھنا جاری کیا۔
"اس آیت میں لفظ الحمد نکلا ہے حمد سے۔ حمد کے دو معنی ہوتے ہیں۔"
"ایک معنی ہوتا ہے اللہ کی تعریف بیان کرنا۔"
"اور دوسرا معنی ہوتا ہے اللہ کا شکر ادا کرنا۔"
(کھڑکی سے باہر اب بادلوں گے گرجنے کی آواز میں اب بارش کے زور و شور سے برسنے کی آواز بھی شامل ہو چکی تھی۔ اس کے کمرے کی کھڑکی پر گرے پردے اب تیز ہوا کی وجہ سے لہرا رہے تھے۔ )
"حمد کا تعلق قابل تعریف کارناموں سے ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے زمین، شمس و قمر، تمام مخلوقات، یہ دنیا، ستاروں اور ہر شے کو بنایا ہے، ان سب کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس پر اللہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔"
اس کے بعد اب شکر کا تعلق تحریر کیا گیا تھا اس صفحے پر جس کو متوجہ ہو کر وہ پڑھ رہی تھی۔
"شکر کا تعلق ان خاص انعامات سے ہوتا ہے جو کسی خاص ذات سے متعلق ہوں۔
جیسے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، کسی کو صحت اور رزق کی فراوانیوں سے مالامال کیا ہے۔ ایسی تمام نعمتوں کے اعتراف کو شکر کہا جاتا ہے۔"
"ہر طرح کی نعمتوں کے شکر اور ہر طرح کی تعریف کا مالک صرف اللہ ہے۔"
"اگر مخلوق میں سے کوئی شخص کوئی قابل تعریف کارنامہ سر انجام دے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے تو وہ حقیقت میں اللہ ہی کی تعریف ہو گی کیونکہ قابل تعریف کام کرنے کی صلاحیت اور توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔"
"گویا ہر طرح کی تعریف کا مستحق اللہ ہی ہے۔"
وہ چند لمحوں کے لیے رک گئی۔ اس کے دل کو جیسے یک دم بہت سے گلٹ نے گھیر لیا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں نمی کی ایک لہر امڈ آئی جس وجہ سے اس کی آنکھیں بالکل ایسی لگتیں جیسے ایک صاف اور شفاف شیشے کے اوپر نمی کی ایک روشن لہر امڈ آئی ہو۔
"اس آیت میں لفظ العالمین "عالم" سے نکلا ہے۔ تمام مخلوقات ایک عالم ہیں۔"
"زمانہ کے لحاظ سے ہر دور کے لوگ ایک عالم ہیں۔ دور بدلنے پرعالم بھی بدل جاتے ہیں۔"
"اس طرح عالم کی سینکڑوں اور ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں۔"
"ان تمام عالموں کی تربیت اور پرورش کرنے والی اللہ ہی کی بلند و برتر ذات ہے۔"
"ہر طرح کی تعریف کا مالک صرف اللہ ہی ہے کیونکہ وہ تمام جہانوں کا تربیت کرنے والا ہے۔"
وہ اس آیت کی تفسیر مکمل کر چکی تھی۔ اس نے تفسیر کو مؤدب طریقے سے بند کیا اور اسے چوما پھر اپنے دل کے ساتھ لگایا۔ اس کی سیاہ بڑی آنکھوں میں اب ندامت جھلک رہی تھی اور اس کا ذہن کئی سوالوں سے بھر پور تھا۔ ایک گہری سانس لینے کے بعد وہ صوفے سے اٹھی اور اپنے کمرے کی الماری کی جانب بڑھی۔ الماری کا دروازہ کھول کر اس نے رہل میں موجود قرآن کی تفسیر کی کتاب کو الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھ دیا۔
چند لمحے بعد وہ اپنے کمرے کے صوفے پر دوبارہ آ کر بیٹھی۔ آسمان سے اب بارش مزید برس رہی تھی ۔ آسمان رو رہا تھا جس طرح سے اس کا دل اس وقت ندامت کے آنسو بہا رہا تھا۔
یہ ندامت آخر کس بات پر تھی؟
یہ اس کی زندگی کی ایک بہت بڑی غلطی یا پھر ایک بہت بڑے گناہ پر تھی۔
"اگر آج میں نے یہ تفسیر نہ پڑھی ہوتی تو میں کبھی اپنی اس غلطی کو نہ پہچان پاتی۔"
اس کی آنکھیں مزید نم ہو گئیں۔ وہ یک دم ماضی کے بھول بھلیا میں کھو گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
")میں نے ایسا کیوں کیا؟"
ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے سوال کیا۔)
یہ منظر ایک مصروف کمرہ جماعت کا تھا۔ تمام نشستوں پر طلبہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔
ٹیچر ابھی تک کمرہ جماعت میں نہیں آئی تھیں۔ وہ سب سے آگے والی کرسی پر بیٹھی تھی جس کےساتھ ایک اور کرسی پر اس کی ہم عمر لڑکی بیٹھی تھی اور سامنے ایک بینچ پڑا تھا جس پر مختلف کتابیں ، نوٹ بکس اور اسٹیشنری کا سامان بکھرا تھا۔
"ویسے انعم تمہیں کیا لگتا ہے اس بار کون فرسٹ آئے گا؟"
نینا نے اپنے بالوں کی بنی ہوئی پونی کو ٹھیک کرتے ہوئے اپنے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھی انعم سے کہا۔
"اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ تمہاری جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا۔"
انعم نے شانے اچکا کر ہلکا سا مسکرا کر کہا تو نینا نے بھی فخر سے شانے اچکائے۔
"نینا تمہیں اتنی خوش فہمی کیوں ہے؟"
یہ آواز ان کے پیچھے والے بینچ کی جانب سے آئی تھی۔ نینا اور انعم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ بھوری آنکھوں والی فرحین تھی جو نینا سے مخاطب تھی۔
اوہ! پہلی بات مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے اور دوسری بات مجھے یہ یقین ہے کہ میری جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا۔ "
نینا نے اب کی بار اپنی قابلیت پر مزید فخر کرتے ہوئے ابرو اچکا کر کہا۔
"آخر تمہیں اتنا غرور کیوں ہے؟"
فرحین نے فوراً اس سے پوچھا تو نینا کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات جھلکے۔
"یہ غرور نہیں ہے یہ میرا اپنے اوپر یقین ہے۔"
اس نے اب کی بار اپنے الفاظ چبا چبا کر ادا کیے۔
"نینا ! تم جانتی ہو غرور یا تکبر کی ایک نشانی کیا ہوتی ہے؟"
فرحین نے چند لمحے بعد اس سے پوچھا تو نینا کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات مزید بڑھے۔
"اف! پلیز اب اپنا لیکچر دینا مت شروع کر دینا۔"
اس نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا جیسے وہ اس کی باتوں سے اکتا گئی تھی۔
"جب ایک انسان تکبر جیسی بری صفت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ یہ جان نہیں پاتا کہ اسے غرور ہے
وہ الٹا کہتا ہے کہ یہ پراعتمادی ہے۔"
اب کی بار جب فرحین نے کہا تو اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔ یہ سن کر نینا کی آنکھوں میں سرخی کی ہلکی سی ایک لہری ابھری۔
"جسٹ شٹ اپ!"
اس نے بلند آواز میں کہا تو اس کے ساتھ بیٹھی انعم نے اس کا کندھا تھپتھپایا تاکہ وہ اپنا غصہ قابو میں رکھے۔
"اور تم جانتی ہو کہ پراعتمادی کہتے کس کو کہتے ہیں؟ اگر۔۔"
فرحین نے مزید کچھ کہنا چاہا لیکن نینا نے اس کی اجازت نہیں دی۔
"کیا اگر؟ اپنا منہ بند کرو، میں تمہاری باتوں کو برداشت کر رہی ہوں اور تم بولے ہی جارہی ہو۔"
اس نے تیز لہجے میں اسے خاموش کروانے کی ناکام کوشش کی۔
"اگر تم پراعتمادی جیسی اعلیٰ صفت کو جان جاتی تو آج یہ سب نہ کہہ رہی ہوتی۔"
فرحین نے افسوس سے سرہلاتے ہوئے بات ختم کی۔ نینا چند لمحے اس کا چہرہ طیش کے عالم میں دیکھتی رہی اور پھر اس نے چہرہ موڑ لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک دم اپنے ماضی کی بھول بھلیا سے باہر نکلی۔ اس کی آنکھیں بالکل برسنے والی تھیں یا شاید برسنا شروع ہو گئی تھیں لیکن اس کا اسے علم نہیں ہو سکا تھا ۔
"آخر میں یہ کیوں نہیں سمجھ پائی کہ یہ سب صلاحیتیں تو مجھے اللہ نے ہی دی ہیں ورنہ میری کیا اوقات۔۔
مجھے چاہیے تھا کہ میں اللہ کا شکر ادا کروں۔۔ الٹا میں تکبر میں مبتلا ہوگئی۔"
اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔ اس وقت اسے پچھتاوے نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا۔
چند ہی لمحوں بعد اس کے ذہن کے پردوں پر کچھ ابھرا۔ اسے یاد آیا۔۔ اس نے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں کچھ اور بھی پڑھا تھا۔
" شیطان کو اپنے تکبر کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا گیا تھا۔"
اس نے صوفے کے ساتھ ٹیک لگایا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"تکبر تو شیطان کی صفت ہے۔۔ کیا اللہ مجھے۔۔"
وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہو گئیں۔
"کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا؟"
اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور زیر لب خود سے سوال کیا۔ اور پھر اس کی سیاہ آنکھیں برسنے لگیں۔۔ زور و شور سے ۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے باہر آسمان کے آنسو برس رہے تھے۔
نینا اپنے آنسو روک نہیں پا رہی تھی۔۔
اور وہ شاید یہ آنسو روکنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
کیونکہ
یہ آنسو تھے ندامت کے، یہ آنسو تھے توبہ کے۔۔
اور توبہ کے آنسو جتنے بھی ہوں، ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ وہ یک دم اپنے خیالوں سے باہر نکلی اور اس نے ایک نظر دروازے کی جانب دیکھا۔ وہ اس کمرے کی الماری کی جانب بڑھی اور اس میں سے ایک سکارف باہر نکالا۔ اس سکارف کو اپنے چہرے کے ارد گرد لیا۔
(گہرے سبز رنگ کے لانگ فراک اور سفید سکارف میں وہ ہمیشہ کی طرح بہت حسین لگ رہی تھی۔)
وہ تیز قدم چلتی ہوئی دروازے کی طرف گئی ۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس نے سامنے کھڑی عریشہ کو دیکھا جس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات خوب واضح تھے۔
"خیریت تو ہے نینا میڈم؟"
عریشہ نے پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھا۔
( اس کے بال ایک ڈھیلے سے جوڑے میں بندھے تھے ۔ وہ ایک گلابی رنگ کی شرت اور نیلی جینز میں ملبوس تھی۔ )
"ہاں ! بالکل خیریت ہے۔ کیوں کیا ہوا؟"
نینا نے اطمینان سے اسے جواب دیا۔ وہ دروازے کے سامنے سے ہٹی یوں کہ اس نے عریشہ کو کمرے میں آنے کی اجازت دی۔ عریشہ فوراً کمرے میں داخل ہوئی۔
"میں آپ کو کافی دیر سے کالز کر رہی تھی۔ آپ فون نہیں اٹھا رہی تھیں۔"
اس نے جیسے شکوہ کیاتھا۔ نینا نے اس کی بات نظر انداز کی۔
"اچھا! تمہیں کوئی کام تھا کیا؟"
نینا کے سوال پر عریشہ تھوڑا حیران ہوئی کہ اس نے اس کی بات کا جواب دینا بھی پسند نہیں کیا۔
"کیا آپ اب بھی مجھ سے ناراض ہیں؟"
عریشہ نے ہچکچاتے ہوئے اس سے پوچھا تو نینا کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری کی لہر ابھری۔
"نہیں میں کیوں تم سے ناراض ہوں گی۔"
نینا نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔
"اگر آپ کو میری کوئی بھی بات بری لگی ہو تو پلیز مجھے معاف۔۔"
عریشہ اپنی بات مکمل نہ کر پائی۔
"اوہ! عریشہ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اپنی اتنی اچھی دوست سے ناراض ہوں گی۔"
نینا نے اس کے کندھے کو تھپتھپا کر کہا تو عریشہ کے چہرے پر ایک روشن سی مسکراہٹ امڈ آئی۔
"تم مجھے کالز کیوں کر رہی تھی؟"
اس نے چند لمحے بعد پوچھا تو عریشہ نے فوراً اپنے ماتھے پر اپنا ہاتھ مارا یوں جیسے وہ کچھ بتانا بھول گئی ہو۔
"آپ کی آج کسی سے بہت اہم میٹنگ تھی نا ۔"
اس نے کہا تو نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں مجھے یاد ہے۔ تمہارا بتانے کا شکریہ۔"
اس نے مختصر سا جواب دیا۔
"ویسے آپ کی میٹنگ کس سے ہے؟"
عریشہ نے تھوڑا ہچکچا کر یہ سوال پوچھا جس پر نینا کے چہرے کے تاثرات بدلے۔
"عریشہ اگر تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے تو تم یہاں سے جا سکتی ہو۔ "
اس نےتھوڑا سخت لہجے میں اس سے کہا۔ یہ سن کر عریشہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور گیا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور خاموشی سے دروازے کی جانب بڑھی۔ دروازہ بند کر کے وہ اس کے کمرے سے چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد نینا نے ایک نظر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ بارش اب تک تھم چکی تھی۔ بارش کی خوشبو ابھی تک تازہ دم تھی۔ یہ خوشبو اسے بہت پسند تھی۔ نیویارک اب بارش کے بعد کے موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی اور پھر اس کے موبائل کی ا سکرین جگمگائی۔
اس نے میز پر سے اپنا موبائل اٹھایا اور اسکرین پر دیکھا۔ کسی انجان نمبر سے وٹس ایپ پر میسجز آرہے تھے۔ اس نے وٹس ایپ کھولا اور وہ اس انجان نمبر سے آئے گئے میسجز پڑھنے لگی۔ وہ نمبر پاکستان کا نہیں تھا۔
Selam! It's my number…"
" Miray Yaman…
یہ میسجز پڑھتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ وہ بھی جوابا میسج ٹائپ کرنے لگی۔
سلام! کیسی ہو تم؟"
اس نے میسج لکھا اور سینڈ کر دیا۔
"میں باکل ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟"
جواب فوراً آیا۔
کچھ دیر وہ دونوں رسمی سی گفتگو کرتی رہیں۔
"کیا ہم مل سکتے ہیں ؟ وہ دراصل۔۔
مجھے تین دن بعد ترکی واپس جانا ہے۔۔"
رسمی سی گفتگو کے بعد میرائے کا جو میسج نینا کو موصول ہوا اس پر اسے تعجب ہوا۔
"اچھا! مجھے تو لگا تھا کہ تم ایک یا دو ہفتے کے لیے نیویارک میں ہی رہو گی۔۔"
چند ہی لمحے بعد نینا نے اسے میسج سینڈ کیا۔
"دراصل۔۔ مجھے ایک بہت اہم کام ہے۔۔ آپ دعا کریں کہ بس وہ کام ہو جائے۔"
میرائے نے نیونارک سے جلدی جانے کی وجہ اسے بتائی۔
"انشا اللہ! اگر تمہاری نیت صاف ہے تو پھر اللہ تمہیں ضرور کامیاب کرے گا۔"
نینا نے مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کیا۔
"انشا اللہ۔"
اس کا میسج موصول ہوتے ہی میرائے نے زیر لب کہا۔ دل ہی دل میں میرائے کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ نینا۔۔ "نینا احسن " سے یوں بات کر رہی تھی۔
"ویسے تم مجھ سے ملنا کیوں چاہتی ہو؟"
نینا کا اگلا میسج جب اسے موصول ہوا تو اس نے جواب دینے میں تھوڑی سے تاخیر کی۔ وہ جواب دینے کے لیے الفاظ تلاش کر رہی تھی۔
"دراصل۔۔"
"مجھے آپ کو ایک تحفہ دینا ہے۔"
میرائے کی طرف سے جواب موصول ہوا تو نینا کچھ سمجھ نہ پائی۔
"تحفہ؟ لیکن کیوں؟"
اس نے ناسمجھی سے میسج ٹائپ کیا اور اسے سینڈ کر دیا۔
"یہ میں آپ کو ابھی نہیں بتاؤں گی۔۔
"بس آپ مجھے یہ بتا دیں کہ کیا ہم آج مل سکتے ہیں؟"
اس نے تھوڑا سوچا ۔ وہ آج میرائے سے نہیں مل سکتی تھی۔
"آج میں تھوڑا مصروف ہوں۔ ہم کل مل سکتے ہیں۔"
نینا نے چند لمحے بعد اسے میسج سینڈ کیا۔ اس کا میسج موصول ہوتے ہی میرائے کا دل خوشی سے کھل اٹھا۔
"تو پھر کل کافی ڈن؟"
اس نے پر جوش سے انداز میں میسج سینڈ کیا۔
"ہاں ڈن۔"
نینا نے بھی مسکراتے ہوئے اسے سینڈ کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ منظر نیو یارک کی ایک بہت ہی مشہور کافی شاپ کا تھا۔ ماحول میں کافی کی میٹھی سی خوشبو رقص کر رہی تھی۔ موسم آج کل کی نسبت کافی مختلف تھا۔ آسمان پر سورج ہر طرف اپنے پر پھیلائے ہوئے تھا لیکن پھر بھی موسم گرم نہیں تھا۔ ۔ ٹھنڈا ہی تھا۔ نیویارک میں ان دنوں سورج کے نکلنے کے باوجود بھی خنکی کا ہی بسیرا رہتا۔
وہ ایک سفید کرسی پر بیٹھی کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ ایک سرخ لانگ کوٹ اور سیاہ سکارف میں ملبوس تھی جو اس پر کافی جچ رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں اس وقت بے چینی تھی ۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کی نیلی آنکھیں چمک اٹھیں جب اس نے دور سے آتی نینا احسن کو دیکھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح ایک عبایے اور سکارف میں ملبوس تھی جس میں وہ کافی باوقار اور پر اعتماد لگتی۔
میرائے کے چہرے پر مسکراہت ابھر آئی۔
نینا کی نظر جب میرائے پر گئی تو اس کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھا اور وہ اس کی ٹیبل کی جانب بڑھی۔
(کافی شاپ کی بڑی کھڑکیاں سورج کی روشنی کی لہروں کو چمکدار لکڑی کے فرش پر رقص کرنے کی دعوت دے رہی تھیں۔پس منظر میں نرم جاز موسیقی کی آ واز بج رہی تھی جس کے ساتھ یہاں موجود لوگوں کی گفتگو کی گونج مل رہی تھی۔)
جب وہ اس کی ٹیبل تک پہنچی تو میرائے اسے ویلکم کرنے کے لیے کرسی سے کھڑی ہوئی۔
" Hoşgeldiniz(ویلکم)۔"
اس نے ایک خوشگوار لہجے میں نینا سے کہا۔
Teşekkür ederim".(شکریہ)۔"
نینا نے ابرو اچکا کر کہا تو میرائے یک دم حیران رہ گئی۔
"واہ! آپ کو ترکچے (ترک زبان )تو بہت اچھے سے آتی ہے۔"
میرائے نے اس سے قابل تحسین انداز میں کہا۔
"شکریہ۔"
اس نے مسکرا کر کہا۔ و ہ ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھی اور پھر میرائے بھی اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ چند لمحے وہ دونوں رسمی سی گفتگو کرتی رہیں اور پھر میرائے نے ویٹر کو بلایا۔
"جی میم! آپ کیا آرڈر کرنا چاہیں گی؟"
ویٹر جب ان کی ٹیبل کے قریب پہنچا تو اس نے میرائے سے پوچھا۔
"ایسا کریں ہم دونوں کے لیے کافی لے آئیں۔"
"فلیور؟"
میرائے نے نینا کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
"Cappuccino…"
اس کا جواب سنتے ہی میرائے ایک دم مسکرائی۔ اس کے مسکرانے کی وجہ نینا کو سمجھ نہ آئی۔
"میم آپ کونسا فلیور۔۔"
"French vanilla…"
میرائے نے فوراً کہا۔
"اوکے میم! تھینکس۔۔"
ویٹر آرڈر لینے کے بعدوہاں سے جانے لگا۔
"تم مسکرا کیوں رہی تھی؟"
اس ویٹر کے جاتے ہی نینا نے متذبذب سے انداز میں پوچھا۔
"وہ دراصل مجھے کسی کی یاد آگئی تھی۔"
میرائے نے ابرو اچکا کر ہلکا سا مسکرا جواب دیا۔
"کس کی یاد؟"
اس نے چند لمحے بعد پوچھا تو میرائے کے چہرے پر یک دم ہلکی سی اداسی کی لہر ابھری جس کی وجہ نینا کو سمجھ نہ آئی۔
"آبے کی۔" اس نے ایک گہری سانس لے کر جواب دیا۔
(آبے ترک زبان میں بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔)
"کیوں؟" اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے ناسمجھی سے پوچھا۔
"انہیں بھی کافی کا یہ فلیور بہت پسند ہے۔ مجھےان سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ہے۔" اس نے شانے اچکا کر کہا۔
"کیوں؟ وہ کہاں رہتے ہیں؟" سوال فوراً پوچھا گیا۔
"وہ ایک افسر ہیں، وہ ہر وقت بہت مصروف رہتے ہیں، وہ اگر گھر آئیں گے بھی تو کچھ ہی دیر بعد چلے جائیں گے۔" اس نے اب کی بار کہا تو اس آنکھوں میں بہت کچھ تھا جو نینا سمجھ نہ سکی۔
"اوہ! اب ایک افسر ہونا کوئی آسان کام تو نہیں۔"
نینا نے نرم لہجے میں اس سے کہا یوں کہ اسے تسلی دے رہی ہو۔
"ہاں ! یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن۔"
وہ کہتے ہوئے رکی اور کچھ سوچنے لگی۔
"لیکن کیا؟"
جب میرائے نے اپنی بات مکمل نہ کی تو اس نے پوچھا۔
"مجھے لگتا ہے انہوں نے بس کام کو ہی اپنی زندگی بنا لیا ہے۔ میں مانتی ہوں ایک افسر کی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان اپنی فیملی کو وقت نہ دے۔"
میرائے کی بات میں دم تھا۔ ۔ یہ نینا نے دل ہی دل میں مانا۔
"یہ بات تم نے بالکل درست کہی۔ ہر انسان کو ہر چیز میں ایک لمٹ رکھنی چاہیے۔"
اس نے کہا۔
"تم جانتی ہو مجھے اور آنے کو اب ایسا لگتا ہے کہ براق آبے گھر ہوتے ہوئے بھی ہم سے کہیں بہت دور ہیں۔" میرائے کی اس بات پر نینا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیاکہے۔ اسے تو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میرائے اسے یوں اپنے گھر کی باتیں کیوں بتا رہی ہے۔
"تم انہیں سمجھانے کی کوشش کر کے دیکھو۔"
اس نے کافی سوچ کر اسے ایک مشورہ دیا۔
"میں نے بہت بار کوشش کی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں۔"
اس نے شانے اچکا کر کہا۔
"خیر میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی۔ میں نے آپ کو یہاں جس کام کے لیے بلایا تھا میں وہ تو بھول ہی گئی۔"
وہ جیسے خود بھی اپنی باتوں سے اب اکتا رہی تھی اس لیے اس نے موضوع تبدیل کیا۔
"کوئی بات نہیں۔"
نینا نے ہلکا سا مسکرا کر کہا جیسے وہ اس کی باتوں سے اکتا نہیں رہی تھی۔
میرائے اپنے ہینڈ بیگ میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ ویٹر ان کی کافی لے آیا تھا۔ اس نے ٹرے میں سے دو کافی کے کپ اٹھا کر ان کی ٹیبل پر نفاست کے ساتھ رکھے۔ میرائے ابھی بھی اپنے ہینڈ بیگ میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔
پتا نہیں کیوں مگر نینا کو میرائے پر افسوس ہو رہا تھا۔
(" خاندان میں اگر کوئی ایک شخص بھی موجود نہ ہو تو وہ خاندان ادھورا ہوتا ہے۔ انسان کا ذہنی طور پر حاضر ہونا بہت ضروری ہے۔ جو انسان ذہنی طور پر کہیں حاضر نہ ہو تو اس کی موجودگی کسی کام کی نہیں۔"
نینا نے دل ہی دل میں سوچا۔)
"یہ رہا آپ کا تحفہ۔"
میرائے کی آواز پر وہ اپنی سوچوں کے دائرے سے باہر نکلی۔ میرائے نے اس کی طرف اس کا تحفہ بڑھایا۔ اس کی آنکھیں یک دم چمک اٹھیں۔
اس کو وہ چیز تحفے میں ملی تھی جو اسے سب سے زیادہ پسند تھی۔ وہ چیز جو آپ کو ہمیشہ فائدہ دیتی ہے۔ ایک کتاب۔
اس کتاب کا کور نیلے رنگ کا تھا جس پر سفید حروف میں کچھ تحریر تھا۔
"Bravery: A Blessing…"
"مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں تمارا شکریہ ادا کیسے کروں۔"
نینا نے خوشی کے عالم میں اس سے کہا تو میرائے مسکرائی۔
"ایک طریقہ ہے۔"
میرائے نے کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے تھوڑا سوچ کر کہا۔
"اچھا! اور وہ کیا؟"
اس نے پوچھا۔
"جب آپ ترکی آئیں گی تو۔"
وہ کہتے کہتے مسکرائی ۔
"تو؟"
نینا نے بھی مسکرا کر پوچھا اور کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
"تو یہ کہ۔۔ آپ کو ترکی (ترکیہ /ترکیے)کی ہر جگہ کا وزٹ میں کرواؤں گی۔"
اس نے جیسے ایک فیصلہ سنا دیا تھا جس پر نینا کی مسکراہٹ مزید بڑھی۔ اسے میرائے کی باتیں بہت معصومانہ لگ رہی تھیں۔
"اچھا تو یہ طریقہ ہے۔ ٹھیک ہے پھر ترکی کی ہر جگہ کا وزٹ تم ہی مجھے کرواؤ گی۔"
اس نے کہا تو میرائے ایک فاتحانہ انداز میں مسکرانے لگی۔
کچھ دیر ان کے درمیان خاموشی رہی ۔ وہ دونوں ارد گرد کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
"ویسے آپ نے ترکیہ آنا کب ہے؟"
اس نے سوال کیا۔
وہ دونوں اب کافی پی چکی تھیں۔
"مارچ میں۔"
اس نے جواب دیا۔
"کونسی تاریخ؟"
اگلا سوال فوراً پوچھا گیا۔
"وہ ابھی کنفرم نہیں ہے۔۔ جب کنفرم ہو جائے گا تو میں تمہیں بتا دوں گی۔"
نینا نے اسے یہ تسلی دلوائی کہ وہ اسے اپنے ترکیے آنے کی تاریخ ضرور بتائے گی ۔
( میرائے کے دل میں کہیں نہ کہیں ایک شک تھا کہ شاید نینا اس سے ترکیے میں آ کر نہ ملے یا شاید یہ ان کی آخری ملاقات ہو۔
شاید اسے میرائے کی دوستی اتنی اچھی نہیں لگی ؟
یہ عجیب سے شک و شبہات میرائے کے دل کو کھائے جا رہے تھے۔)
"ٹھیک ہے۔"
اس نے اثبات میں سر ہلا کر کہا۔
"میرائے!۔" نینا نے اسے چند لمحے بعد پکارا۔
"ہاں؟" اس نے فوراً اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
"تم نے مجھے کتاب ہی تحفے میں کیوں دی؟"
نینا نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے پوچھا۔
“کیونکہ۔۔ مجھے آپ کی شخصیت دیکھ کر انداذہ ہو گیا تھا کہ آپ کو کتابیں تو بہت پسند ہوں گی۔"
اس نے تھوڑا سوچ کر مسکرا تے ہوئے کہا۔
"کمال ہے! تمہیں تو لوگوں کی شخصیت پہچاننے کا بھی فن آتا ہے۔"
نینا نے اس کے اس فن کو سراہا۔
"آپ پاکستان واپس کب جارہی ہیں؟"
"تین دن بعد۔"
اور یہ سن کر میرائے کے چہرے پر حیرانی اور بے یقینی کے تاثرات ابھرے۔
"آپ ! آپ نے بتایا ہی نہیں۔"
اس نے شکوہ کن لہجے میں کہا۔
"تم نے پوچھا ہی نہیں۔"
نینا نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
یہ سن کر میرائے یک دم خاموش ہو گئی جیسے اسے نینا کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ نینا کو اس کے یوں خاموش ہو جانے کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔
"میرائے! تم میری ایک بات یاد رکھنا۔ جتنا سوال ہو اتنا ہی جواب ہو۔ غیر ضروری معلومات انسان کو ہمیشہ نقصان ہی دیتی ہیں۔"
اس نے اب کی بار کچھ سنجیدگی سے اسے ایک کافی کار آمد نصیحت کی جسے سن کر میرائے نے اثبات میں سر ہلایا یوں کہ وہ اس کی بات اچھے سے سمجھ گئی ہو لیکن در حقیقت وہ اس کی بات کی گہرائی نہیں سمجھ پائی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند دن بعد۔
New York John F. Kennedy International Airport (JFK).
آسمان پر سورج گہرے بادلوں کے سائے میں ڈوب چکا تھا۔ خنکی آج کافی زیادہ تھی۔
میرائے ائیر پورٹ پر موجود تھی۔
( ائیرپورٹ پر دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مسافروں کی بھیڑ تھی۔
جیسے ہی کوئی شخص ٹرمینل پر قدم رکھتا ، ہلچل مچانے والی آوازوں کی سمفنی کے ساتھ اس کا استقبال ہوتا۔
یہاں پر موجود وسیع کھڑکیوں کے ذریعے یہ قدرتی روشنیوں سے منور تھا۔
چمکدار فرشوں پر سوٹ کیس گھومنے کی آواز ۔۔ متعدد زبانوں میں انٹر کام کے اعلانات۔۔ اور مختلف زبانوں میں مسافروں کی چہچہاہٹ کی آوازیں رقص کر رہی تھیں۔)
اس کی نیلی آنکھوں میں آج خوشی کی ایک خاص چمک تھی
کیونکہ وہ آج اپنے وطن واپس جا رہی تھی۔
( کچھ مسافر چیک ان کاؤنٹر کی طرف بھاگ رہے تھے تو کچھ حفاظتی چوکیوں سے گزرتے ہوئے یا راہداریوں کی قطار میں کھڑی دکانوں کی صف میں مختصر وقفہ لینے کے لیے کھڑے تھے۔)
(میرائے نے اپنی کلائی میں پہنی رسٹ واچ کو دیکھا ۔ اس کی فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور بینچ سے اٹھی۔ وہ اب اپنا سوٹ کیس تھامے اپنی منزل تک جانے لگی۔)
نیو یارک کا یہ سفر وہ کبھی نہیں بھولے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرائے یامان کے نیویارک سے جانے کے چند دن بعد۔
آج وہی موسم تھا جو نینا کو بالکل پسند نہیں تھا۔ آسمان پر چمکدار سورج اپنی کرنیں ہر سو پھیلائے ہوئے تھا۔ اس کی سنہری چمک آنکھوں کو مسحور کر دیتی۔
نینا ائیر پورٹ پر موجود تھی۔ عریشہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی۔
(عریشہ اپنے لیے کافی لے آئی تھی اور بینچ پر بیٹھ کر اس کافی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس نے نینا کو بھی کافی کی آفر کی لیکن اس نے یہ آفر قبول نہ کی۔
"ایسے موسم میں کافی کون پیتا ہے؟" نینا نے اس کی آفر کے بدلے میں جواب دیا۔)
وہ آج کافی خوش تھی، ظاہر سی بات ہے ہر شخص کو اپنے ملک واپس لوٹنے کی خوشی تو ہوتی ہی ہے۔
(ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے کئی بار اسے حلیمہ صاحبہ اور احسن صاحب کال کر چکے تھے ۔ اب بھی اسے حلیمہ صاحبہ کے بار بار میسجز آ رہے تھے جس میں وہ اس سے بار بار اس کی فلائٹ کے متعلق پوچھی جا رہی تھیں۔ وہ بھی ان کے ہر میسج کا جواب چہرے پر قائم ایک خوبصورت اور نرم مسکراہٹ کے ساتھ دیتی۔)
(اس نے موبائل پر وقت دیکھا تو بینچ پر ساتھ بیٹھی عریشہ کو مخاطب کیا۔ ان کی فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ دونوں اپنی منزل کی طرف چلنے لگیں۔)
نیو یارک کا یہ سفر اسے بھی کبھی نہیں بھولے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور، پاکستان۔
سگریٹ کا دھواں ہر سو پھیلا تھا۔
(وہ سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ کھڑکی سے آتی ہوئی چمکتی دھوپ اس کے چہرے پر سیدھا آ کر گر رہی تھی۔
اس نے اپنے سیاہ بال جیل کی مدد سے ماتھے سے پیچھے کو سیٹ کیے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی سیاہ تھیں ۔ وہ سگریٹ کا ایک کش لینے کے بعد اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے ایک مردانہ شال اپنے کندھوں پر لے رکھی تھی۔)
اپنے سامنے رکھی میز پر پاؤں ٹکائے وہ صوفے پر بازو پھیلائے کافی شاہانہ سے انداز میں بیٹھا تھا۔
اس کی تمام تر توجہ ایل ای ڈی کی اسکرین پر پاکستان کے وزیر اعظم کی چلنے والی تقریر پر تھی۔
"پاکستان کے ہر حصے کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔
ہر حصے کا مطلب آپ اچھے سے سمجھ لیں۔
کشمیر!
کشمیر بھی پاکستان کا ہی حصہ ہے۔"
وزیر اعظم کے الفاظ اس کے چہرے پر تناؤ بڑھا رہے تھے۔
"جو شخص میرے ملک کا دشمن ہے یا پھر وہ میرے ملک کے دشمنوں کے ساتھ دوستی یا ہمدردی رکھتا ہے تو وہ یہ جان لے کہ اس کا انجام پوری دنیا دیکھے گی اور کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مجھے ان کی حقیقت نہیں معلوم۔ آپ اپنی یہ غلط فہمی دور کر لیں۔"
وزیر اعظم کی تقریر میں ادا کیے گئے یہ الفاظ جیسے اس کے دل و دماغ میں طیش کی آگ کو مزید بھڑکا گئے تھے۔
"میکائیل ملک " نے ایل ای ڈی کا کنٹرول میز پر سے اٹھایا اور پھر اس نے ایل ای ڈی بند کر دی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
"میکائیل صاحب ! آپ کی چائے۔"
(اس کے گھر کی ملازمہ "عنایہ بی بی" غلط وقت پر آ گئی تھیں۔ وہ بوڑھی عورت ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھی۔ وہ سر پر دوپٹہ اوڑھے معمولی سے لباس میں ملبوس تھی اور وہ اس کے جواب کی منتظر تھیں۔ ان کے چہرے پر جھڑیاں ہی جھڑیاں تھیں۔)
میکائیل نے ایک نظر عنایہ بی بی کو دیکھا اور پھر انہیں ہاتھ سے چائے کا کپ سامنے میز پر رکھنے کا اشارہ کیا۔ اس میز پر جس پر وہ مغرور سے انداز میں پاؤں ٹکائے ہوئے تھا۔
عنایہ بی بی وہ چائے کا کپ میز پر رکھنے کے لیے جھکی ہی تھیں کہ میکائیل ملک نے اپنا ہاتھ اپنی پوری طاقت کے ساتھ چائے کے کپ پر دے مارا۔ چائے کا کپ زمین پر گر کر ایک زور دار آواز کے ساتھ ٹوٹ گیا۔
عنایہ بی بی یک دم کچھ سمجھ ہی نہیں پائیں۔ وہ بالکل ساکت سی کھڑی چائے کے ٹوٹے ہوئے کپ کو دیکھتی رہیں۔ انہیں میکائیل سے اس طرح کی حرکت کی توقع نہ تھی۔
(وہ شاید یہ بھول رہی تھیں کہ وہ میکائیل ملک تھا
جس کا اپنے غصے پر قابو رکھنا بالکل ناممکن تھا۔
اور اس غصے کو اپنے سے کمزور لوگوں پر اتارنا اس کا سب سے پسندیدہ کام تھا۔)
"جاہل عورت! میں تمہیں تنخواہ اس بات کی دیتا ہوں کیا۔"
اس نے ایک گہری سانس لی اور صوفے سے اٹھا۔ اپنی طیش سے بھری نگاہوں سے اس نے عنایہ بی بی کو دیکھا جو سہمے ہوئے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"میں نے تمہیں کب کا چائے لانے کا کہا ہوا ہے۔"
وہ بلند آواز میں ان پر چیخا۔
"صاحب جی وہ۔۔۔ آپ نے جب کہا میں چائے لے آئی۔"
انہوں نے بمشکل اپنے گلے سے آواز نکالتے ہوئے کہا۔
"مطلب میں جھوٹ بول رہا ہوں؟"
اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے مزید بلند آواز میں کہا۔ اب کی بار عنایہ بی بی سے جواب نہ دیا گیا ۔ وہ خاموش رہیں۔
("اتنی بے عزتی! آخر میرا قصور کیا ہے؟" انہوں نے دل ہی دل میں سوچا ۔
وہ یہ الفاظ صرف سوچ سکتی تھیں لیکن انہیں زبان تک لانے کی ہمت ان میں نہ تھی۔)
"میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے یہاں کام کرنا ہے تو میرے اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی ورنہ اپنا بوریا بستر اٹھاؤ اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ تمہاری ان حرکتوں کے باوجود تم یہاں اب تک جو کام کر رہی ہو نا! اس کی وجہ صرف میرے مرحوم والد صاحب ہیں ورنہ تم جیسے نوکروں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔"
وہ ان کی مسلسل تذلیل کیے جا رہا تھا۔۔ ان کی عمر کا لحاظ کیے بغیر۔
(میکائیل ملک ایسا ہی تھا۔ طیش کے عالم میں ادب و احترام ۔۔ سب کچھ بھول جانے والا۔)
اس بوڑھی عورت کا چہرہ بالکل سرخ ہو گیا تھا۔ میکائیل ابھی تک اس پر چیخ رہا تھا۔
"اب کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔"
"Get lost! "
عنایہ بی بی یہ سن کر تیز قدم چلتی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر نکلیں۔ وہ اب باورچی خانہ میں جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ دیر بعد۔
میکائیل کا غصہ اب تک ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھا اب بس سگریٹ کے کش لینے میں مگن تھا جب اس کے آئی فون کی اسکرین جگمگائی۔ اس نے ایک نظر فون کی اسکرین پر ڈالی۔ اسکرین پر روشن نمبر کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھر آئی۔ اس نے فون پک کیا۔
"میں یہ بیان دے دوں گا۔ لیکن۔۔"
فون پر کچھ دیر روز مرہ کی گفتگو کے بعد جب دوسری جانب سے ایک شخص نے وہ سوال کیا جس کا اسے انتظار تھا، تو اس نے جواب دیا لیکن وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔
"ہاں ! تمہیں جو بھی چاہیے وہ تمہیں مل جائے گا بس یہ کام آج ہی ہو جانا چاہیے۔"
دوسری جابب سے ایک شخص نے بھاری مردانہ آواز میں اسے حکم دیا۔
"ہاں ! تم اس کی فکر مت کرو۔"
میکائیل نے فوراً جواب دیا۔
"ویسے تم کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم مجھ پر کوئی احسان کر رہے ہو۔"
اس نے اب کی بار ابرو اچکا کر مزید کہا تو دوسری جانب سے ایک زور دار قہقہہ لگا کر ہنسنے کی آواز آئی۔
"اچھا! اور وہ کیوں؟"
دوسری جانب سے یہ سوال پوچھا گیا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ میکائیل ملک کا تمسخر اڑا رہا ہو۔
"کیونکہ یہ ایک بزنس ہے اور اس بزنس میں ہم دونوں کا بہت منافع ہے۔"
اس نے شانے اچکا کر سنجیدگی سے کہا ۔
اس کا یہ جواب سن کر دوسری طرف سے کوئی پھر مسکرایا۔ اب میکائیل نے فون کھڑک سے بند کر دیا اور عادت کے مطابق سگریٹ دوبارہ پینے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عنایہ بی بی باورچی خانے میں موجود تھیں۔ چولہے پر دوپہر کا کھانا پک رہا تھا۔ وہ چولہے کے پاس کھڑی تھیں۔ تبھی ارم باورچی خانے میں داخل ہوئی۔ وہ بھی ان کے گھر میں کام کرنے والی ایک ملازمہ تھی جس کو کچھ ہی مہینے پہلے اس گھر میں کام کے لیے رکھا گیا تھا۔
وہ ایک انیس بیس سال کی لڑکی تھی جو اپنی مجبوریوں کی بنا پر یہاں کام کرنے آئی تھی۔
وہ باورچی خانہ میں عنایہ بی بی کی کھانا پکانے میں مدد کے لیے آئی تھی۔ بہت ہی کم عرصے میں اس کی عنایہ بی بی سے کافی اچھی بات چیت شروع ہو گئی تھی۔ اس نے جب ان کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات کو دیکھا تو اس نے ناسمجھی کا اظہار کیا۔
"کیا ہوا عنایہ بی بی؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟"
اس کے سوال کا جواب عنایہ بی بی نے نہیں دیا۔ انہیں یوں پریشان دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا۔
"عنایہ بی بی ! بتائیں مجھے کیا ہوا ہے آپ کو؟"
اس نے انہیں جواب دینے پر اصرار کیا۔
"بیٹی کیا ہوگا مجھے ہمیشہ سے ہم غریبوں کے ساتھ یہی تو ہوتا آ رہا ہے۔" ان کی آنکھوں کی نمی بڑھ گئی۔
" دن رات محنت کرنے کے باوجود بھی ہمیں ان مغرور لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہی ہونا پڑتا ہے۔" ایک آنسو ان کی آنکھ سے لڑھکتا ہوا ٹھوری تک پہنچا جسے انہوں نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔
"میکائیل صاحب اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں؟"
ارم نے چند لمحے بعد پوچھا۔
"بیٹی ! تمہیں ابھی کچھ نہیں معلوم۔ تمہیں ابھی یہاں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ اگر تم نے یہ دیکھا ہوتا کہ میکائیل صاحب نے بیگم صاحبہ کے ساتھ۔۔"
وہ اس کے سوال پر جیسے اپنی ساری بھراس نکالنا شروع ہو گئی تھیں لیکن اسی بھراس کے دوران وہ اپنی زبان سے کچھ ایسا کہنے لگی تھیں جو انہیں شاید نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ وہ ایک دم گھبرا گئیں۔ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ کچھ ایسا بولنے والی تھیں جو ایک بھیانک طوفان لا سکتا تھا۔
"کیا کیا انہوں نے بیگم صاحبہ کے ساتھ؟"
ارم نے وہ سوال کیا جس کا انہیں ڈر تھا۔ عنایہ بی بی کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔ وہ چند لمحے کچھ بول ہی نہ سکیں۔
"ک۔۔ک۔۔کچھ نہیں۔"
انہوں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا ۔
"اور تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ جاؤ جا کر اپنا کام کرو اور مجھے بھی اپنا کام کرنے دو۔"
انہوں نے مزید کہا۔
ارم ان کی بات سن کر وہاں سے جانے لگی۔ اس کے چہرے پر بہت کچھ تھا اور اس کا ذہن کئی سوالوں سے بھرا ہوا تھا۔
"آخر کیا ہوا تھا بیگم صاحبہ کے ساتھ؟"
اس کے دل و دماغ میں بار بار یہ سوال امڈ رہا تھا جس کا جواب اب اسے ہر صورت چاہیئے تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭