Share:
Notifications
Clear all

Novel Madd-e-muqabil by Ammar Ahmed Episode 2

1 Posts
1 Users
0 Reactions
246 Views
(@ammarkhi)
Active Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 2
Topic starter  

دوسری قسط

 

حبا کے امتحان ختم ہوگئے ہیں پریکٹیکل کے لیے کیا کرنا ہے؟" سُلطان وِلا میں طارق سُلطان نے کھانے کی میز پر اپنی بیگم سے پوچھا۔"

جی یہ کہہ رہی تھی کہ پریکٹیکل سینٹر میں لے گی ایڈمیشن۔ دیکھیں شاید کل جائے گی وہاں فریحہ کے ساتھ۔" اُنہوں نے اِطلاع دی۔"

آگے کا کیا ارادہ ہے ہماری شہزادی کا؟ اپنی والدہ کی طرح دین کا کام کرنا ہے یا کسی اور شعبے میں ہمارا نام روشن کریں گی؟" طارق سُلطان نے بیٹی کی آگے کی تعلیم کے حوالے سے دریافت کیا۔"

یہ تو اسلامک لرننگ میں داخلے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن میری بالکُل بھی مرضی نہیں ہے۔" طیبہ سُلطان نے حِبا کے ساتھ اپنی رائے بھی بتادی۔"

کیوں خاتون آپ کو کیا اعتراض ہے ویسے؟" اُنہوں نے مُسکراکر بیگم سے پوچھا۔"

 

آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری بیٹی کو گلاسوفوبیا (زیادہ تعداد میں موجود لوگوں کے سامنے بولنے کا خوف) ہے۔ وہ زیادہ لوگوں کے سامنے نہیں بول پاتی ہے، بولنا" تو دور عوام کے سامنے بولنے کا سُن کر ہی اُس کی حالت خراب ہوجاتی ہے اور ہم لوگوں کو تو ہمیشہ بڑے بڑے اجتماعات میں بولنا ہی ہوتا ہے ۔ میری تو یہی خواہش تھی کہ میری بیٹی میرے ساتھ جایا کرے اور لوگوں تک دین کا پیغام پہنچائے لیکن اللہ کی شاید کچھ اور مرضی ہے تو بس میں تواُس مالک کی رضامیں راضی ہوں۔ اِس لیے میں اپنی بیٹی کو مُشکل میں ڈال کر اِس شعبے میں نہیں بھیج سکتی۔ اور ویسے بھی آج کل جدید دور ہے وہ کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں کُچھ کرلے گی۔ آپ کو پتہ ہے آج کل اکثر آن لائن سیشنز ہوتے ہیں ہمارے ۔ مجھے تو یہ نئی ٹیکنالوجی وغیرہ کا پتہ نہیں ہے، آپ کی صاحبزادی ہی یہ زوم اور گوگل میٹ وغیرہ سیٹ کرکے دیتی ہے مُجھے۔ اُس کا ذہن ماشاءاللہ بہت تیز ہے بس اللہ میری بیٹی کو کامیاب کرے۔" اُنہوں نے اپنی رائے کی وجوہات پیش کرتے ہوئے بتایا۔ بیٹی کودُعا دے کر وہ تھوڑی جذباتی بھی ہوگئی تھیں۔

آمین آمین بالکُل ذہین تو ہوگی اپنے باپ پر جو گئی ہے ذہانت میں۔" طارق سُلطان نے فخر سے کہا۔"

بس سارا کریڈٹ آپ لے لیں ماں پر بالکُل نہیں گئی۔" اُن  کی بات پر طیبہ سُلطان نے  خفگی سے جواب دیا۔"

نہیں نہیں ایسا ہم نے کب کہا، اپنی ماں کی طرح بہت پیاری ہے  ہماری بیٹی۔" اُنہوں نے بیگم کی تعریف کی۔"

آپ نے کبھی نہیں سُدھرنا۔" طیبہ سلطان نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔"

اچھا بیگم آپ پریکٹیکلز کے بعد حِبا سے اس سلسلے میں بات کرلیے گا کیونکہ اُس کی مرضی اور خوشی کے بغیر تواُسے کہیں داخلہ نہیں دلاسکتے ناں۔" اُنہوں نے بیگم سے کہا۔"

جی بالکُل میں اُس سے بات کرلوں گی۔" طیبہ سلطان نے اثبات میں سرہلاکر جواب دیا۔"

حِبا اور فریحہ اگلے دن جاکر پریکٹیکل سینٹر میں ایڈمیشن کرواآئی تھیں۔ دو دن بعد کلاسز شروع تھیں ، اِس لیے کُچھ سامان خریدنے کے لیے واپسی میں وہ دونوں اسٹیشنری اسٹور میں پہنچی تھیں۔ وہاں ایک کونے میں جب وہ نوٹ بُکس دیکھ رہی تھیں تب فریحہ نے بات شروع کی:

"ویسے چھُٹی پر کب تک جانا ہے تُم لوگوں نے؟"

ابھی تو ٹائم ہے یار۔ پہلے پریکٹیکلز ہوجائیں اُس کے بعد ہی جائیں گے۔ کیوں کیا ہوا؟" حِبا نے اُسے جواب دیکر پوچھا۔"

یار وہ میں نے تُجھے ایک بات بتانی تھی۔ وہ اماں کہہ رہی تھیں کہ ۔۔۔۔وہ کہہ رہی تھیں کہ دیکھ تو غُصّہ مت ہونا ٹھیک ہے؟" فریحہ نے اُس سے ڈرتے ڈرتے کہا۔"

حِبا نے اُس کی بات سُن کر اپنے ہاتھ میں موجود نوٹ بُک واپس کاؤنٹرپر رکھی اور اُس کی طرف رُخ کرکے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا۔

"ہاں ہاں بولیں فریحہ بیگم میں سُن رہی ہوں۔"

"یار اماں نے کہا ہے کہ پریکٹیکلز کے بعد کیوں اتنا وقت ضائع کرنا ہے اِس لیے یونیورسٹی میں ایڈمیشن سے پہلے الہُدٰی سے کوئی چار چھ مہینے کا کورس کرلوں۔" اُس نے تھوڑا ٹھہر ٹھہر کر ڈرتے ہوئے بتایا۔

اور وہ جو تُو مری ہوئی مچھلی کی طرح اگلے چھ مہینے تک سونے والی تھی اُس کا کیا؟ اماں کو منع نہیں کرسکتی تھی؟۔" حِبا نے غُصے سے گھورتے ہوئے کہا۔"

تب فریحہ  نے آس پاس  دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی اِس طرف دیکھ نہ رہا ہو، پھر اپنے سر پر موجود دوپٹّہ دُرست کرتے ہوئے نظریں نیچی کرکے کہا:

"دیکھیں مِس حِبا سُلطان! ہم مشرقی لڑکیاں ہیں آپ کو معلوم ہے ناں کہ ہم اپنی لائف کے فیصلے خود نہیں کرتی ہیں۔"

اُس کی اِس حرکت پرحِبا  کا پارہ ہائی ہوگیا وہ پاس کاؤنٹر میں رکھا ہائی لائٹر اُٹھاکر غُصے سے بولی:

"دیکھ فریحہ! اِس وقت میں نے تُجھے کوئی چیز اُٹھاکے ماردینی ہے اس لیے یہ ڈرامے ناں کر اور ابھی بورڈ کے ایگزام سے ایک مہینے پہلے جب تیری اماں نے نیٹ فلکس کی سبسکرپشن کروانے سے منع کیا تھا تو کیسے تُو نے ضد کرکے اپنی بات منوائی تھی ہیروئن! بھول گئی؟  تب تیری یہ مشرقی عورت کہاں چلی گئی تھی؟ بول؟"

یار وہ مُجھے پڑھنے کے لیے رات دیر تک جاگنا ہوتا تھا ناں اس لیے نیٹ فلکس ضروری تھا ورنہ مجھ سے رات دیرتک جاگا نہیں جاتا۔ تُو  تو جانتی ہے مجھے۔"فریحہ مزید اُسے چھیڑرہی تھی۔"

میرا دل چاہ رہا ہے اس وقت تُجھے یہیں چھوڑکر گھر چلی جاؤں، پھر اپنے ابا سے کہہ کر منگوالینا گاڑی اور چلی جانا گھر۔" حِبا واقعی پریشان ہوگئی تھی۔"

اچھا سوری یار!دیکھ بہن توُ پہلے پانی پی لے اور غُصہ مت کر ، ہم کُچھ سوچتے ہیں ناں۔" اب اُس نے تسلی دی۔"

"یار میں ریلیکس تھی کہ پریکٹیکل دے کر چُھٹی پرجاؤں گی پھر وہاں سے واپس آکر امی، ابو سے بات کروں گی لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ تُو میرے واپس آنے سے پہلے ہی الہُدیٰ میں ایڈمیشن لے چُکی ہوگی اور مُجھے موقع نہیں ملے گا تیرے ساتھ الہُدٰی جانے کا۔" حِبا نےاُسے اپنی پرابلم بتائی۔

"ابھی پریکٹیکل میں دس، بارہ دن ہیں اور پریکٹیکل کے بعد تُو کالج سے سیدھی ایئرپورٹ نہیں چلی جائے گی۔ تیرے چھُٹی پر جانے سے پہلے ہم آنٹی سے بات کرلیں گے اوکے؟ چل اب اپنا موڈ ٹھیک کرلے ۔" فریحہ نے اُس کی پرابلم کا حل بتایا اور پھر وہ لوگ اپنی شاپنگ کرکے وہاں سے چلے گئے۔

 

 
 

یاسمین پریکٹیلز کی تیاری کے لیے کالج گئی تھی۔ تین گھنٹے پریکٹس کرنے کے بعد جب وہ فارغ ہوئی تو اُسے احساس ہوا کہ اُس کی باقی سب دوستیں جاچکی تھیں۔ وہ پریکٹیکل کا سامان اپنی فزکس ٹیچرمِس فرحین کو دے کر کالج سے باہر  نکل کر دائیں طرف چلنے لگی تو اُسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے رُک کر پیچھے پلٹ کر دیکھا تو کالج کے گیٹ کے ساتھ ہی ایک گاڑی کھڑی تھی جس پر ٹیک لگائے کھڑا چوبیس پچیس سال کا لڑکا اٰس کی طرف دیکھ کر مُسکرارہا تھا۔ وہ مس فرحین کا بیٹا آرون تھا جو پہلے بھی اپنی ماں کو لینے کے لیے کالج آتا رہا تھا۔ اُسے مُسکراتا دیکھ کر یاسمین کو عجیب اُلجھن سی ہونے لگی مگر وہ چہرےسے کوئی تاثر دیے بغیر ہی تیز قدموں کے ساتھ واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔گھر پہنچی تو اُس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ پانی پی کر آئینے میں جاکر اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔ زندگی میں پہلی بار کسی اجنبی لڑکے نے ایسے اُسے دیکھا تھا۔ وہ خود بھی آج اپنے آپ کو الگ طریقے سے دیکھ رہی تھی۔ کُچھ دیر یوں ہی دیکھنے کے بعد وہ یہ سب خیال ذہن سے نکال کر کام میں مصروف ہوگئی۔

آ ج اتوار تھا۔ زاراعاشِر کو لے کر چرچ گئی ہوئی تھی۔ یاسمین تھوڑی دیر سے سوکر اُٹھتی تھی اِس لیے وہ بعد میں چرچ جایا کرتی تھی۔ زارا باقی سب کے ساتھ عبادت میں مصروف تھی جب یاسمین بھی وہاں پہنچ گئی۔کچھ دیر بعد زارا، عاشِر کو لےکر واپس آنے لگی تو یاسمین نے کہا کہ وہ کُچھ دیر مزید وہیں رُکے گی۔ زارا اُسے چھوڑکر بیٹے کے ساتھ گھر چلی گئی۔یاسمین بیٹھی دُعا کررہی تھی۔ اپنے خاندان کے آپس کے تعلقات، اپنے بھائی کی صحت، والدین کی صحت ،اپنی کامیابی اور اپنے مُستقبل کی دُعائیں کیں۔ تبھی اُس کے ذہن میں آرون کا خیال آیا۔ اُس نے خداوند سے اپنے لیے اچھے شوہرکی دُعا کی اور پھر اُٹھ کر چرچ سے باہر جانے لگی۔ وہاں اُس وقت بہت کم لوگ موجودتھے۔ چرچ کے باہر نکلتے ہی سامنے مِس فرحین کی کار کھڑی دیکھ کر اُس کے قدم وہیں جم گئے۔ اُس کی نظریں غیر اِرادی طور پر دائیں بائیں اُٹھنے لگیں۔

کیا آپ مُجھے تلاش کررہی ہیں؟" آواز اُس کے پیچھے چرچ کے اندر سے آئی تھی۔"

اُس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ سامنے سے چلتا ہوا اِسی طرف آرہا تھا۔ بلیک جینز اور لائٹ بلو ٹی شرٹ پہنے وہ بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ نزدیک آرہا تھا ،یاسمین کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جارہی تھی۔

"سلام" اُس نے یاسمین کے قریب پہنچ کر بائیں ہاتھ کو پیشانی تک لے جاکر سیلوٹ کرنے کے انداز میں سلام کیا تو یاسمین کے چہرے پر مُسکراہٹ آگئی۔ مگراگلے ہی لمحے اُسے احساس ہوا کہ وہ ابھی چرچ کے دروازےپر ہی کھڑے تھے اور لوگ بے شک کم تھے لیکن پھر بھی کوئی اُسے اِس طرح اجنبی لڑکے سے بات کرتے دیکھ سکتا تھا۔ آرون اُس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کرجلدی سے بولا:

"آپ سے کچھ بات کرنی تھی پریکٹیکلز کے حوالے سے تو کیا ہم یہ چرچ کے ساتھ جو گارڈن ہے وہاں بیٹھ کربات کرسکتے ہیں؟"

یاسمین کو سمجھ نہیں آیا کیا کرے۔ اُس نے دماغ چلانا شروع کیا تو پہلے خیال آیا کہ اِس وقت گارڈن میں بچے کھیل رہے ہوں گے سو وہاں بات تو ہوسکتی تھی مگر پریکٹیکلز کے حوالے سے کیابات کرنی تھی۔

آپ کو مِس فرحین نےبھیجا ہے؟" اُس نے آرون سے پوچھ لیا۔"

جی بس کچھ ضروری بات ہے، یہاں کھڑے ہوکر کرنا مُناسب نہیں اس لیے ہم اُس طرف چلے چلتے ہیں۔" آرون نے دائیں جانب موجود گارڈن کی طرف اِشارہ کیا۔"

"جی ٹھیک ہے لیکن جو بھی بات ہے آپ جلدی کیجیئے گا پلیز۔" وہ کہہ کر تیز قدموں کے ساتھ گارڈن کی طرف چل پڑی۔آرون اُس کے پیچھے کچھ فاصلے سے چل رہا تھا۔ گارڈن میں آمنے سامنے چھوٹی چھوٹی بینچ لگی ہوئی تھیں ۔ تھوڑے فاصلے پر کُچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ وہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور چرچ میں وہ دوپٹّہ سر پر لے لیتی تھی جو ابھی بھی سر پر لیا ہوا تھا۔ وہ جاکر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ آرون آیا اور سامنے کی بینچ پر بیٹھ گیا۔

جی کہیے کیابات ہے؟" اُس نے جلدی سے پوچھا۔ وہ غیرآرام دہ محسوس کررہی تھی۔"

میں مام کو پِک کرنے اکثر آتا رہا ہوں آپ کے کالج۔ وہیں میں نےآپ کو دیکھا تھا۔" آرون نے ٹھہر ٹھہر کر بات شروع کی۔"

ایک منٹ۔ آپ نے پریکٹیکلز کی بات کرنی تھی وہ کریں پلیز۔" اِ س سے پہلے کہ وہ آگے کُچھ کہتا یاسمین نے اُسے  ٹوک دیا۔"

جی نہیں۔ سوری لیکن وہ میں نے بات کرنے کے لیے بہانہ کیا تھا۔" اُس نے تھوڑا معذرت خواہانہ چہرہ بناکر کہا۔"

دیکھیں یہ غلط بات ہے کوئی دیکھ لے گاتو مسئلہ ہوجائے گا۔میں چلتی ہوں۔" وہ کہہ کر اُٹھنے لگی۔"

 بس دومنٹ میری بات سُن لیں پلیز۔" وہ درخواست کرنے لگا تو وہ رُک گئی۔"

جی بولیں۔"اُس نے دوبارہ بیٹھتے ہوئےکہا۔"

"میں سیدھی بات کرتا ہوں۔ میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے آپ کو پسند کرنے لگا ہوں اور آپ کو اپنی مُستقبل کی ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔" اُس نے بنا تمہید باندھے اپنی پسند کا اظہار کردیا۔اُس کی بات سُن کر یاسمین کا دل پھر سے تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اُسے ایک موہوم سی اُمید تو تھی کہ وہ یہی کہے گا لیکن اِس طرح ڈائریکٹ اظہار کی توقع نہیں تھی۔ اُس نے ایک گہری سانس لے کر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بات شروع کی:

"دیکھیں مُجھے نہیں سمجھ آرہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور میں آپ کو کیا جواب دوں۔ میں نے ابھی آگےپڑھائی کرنی ہے،گھر کی کُچھ ذمہ داریاں نبھانی ہیں  اور پھر میں تو آپ کو جانتی تک نہیں۔ بس آپ مِس فرحین کے بیٹے ہیں اتنا جانتی ہوں۔"اُس نے جملہ پورا کیا تو اُس کا گلا خُشک ہورہا تھا۔

"آپ صرف ہاں کردیجیئے ، پھر میں مام اور ڈیڈ سے بات کرلوں گا اور وہ آپ کے مام اور ڈیڈ سے مل لیں گے۔ باقی آپ پڑھائی کرتی رہیں مُجھے ابھی شادی کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ابھی میرا بزنس اسٹارٹ ہوا ہے تواُسے سیٹ کرنے میں ڈیڑھ دو سال لگیں گے اِس لیے ابھی ہم engagement کرلیں گے۔ میں آپ کی ذمہ داریوں میں آپ کا ساتھ دینا چاہتا ہوں اوروعدہ کرتا ہوں آپ کو بہت خوش رکھوں گا۔" اُس نے بہت جذبات کے ساتھ کہہ کراپنی بات ختم کی تو یاسمین نے شرم سے نظریں نیچے جھُکالیں۔ پھراُس نے آہستہ سے سر اُٹھاکر کہا:

"دیکھیں یہ سب ایسے نہیں ہوتا، میں آپ کو ایسے کیسے ہاں کہہ سکتی ہوں۔ ابھی میرے پریکٹکلز ہیں مُجھے اُس پہ فوکس کرنا  ہے۔ مُجھے کُچھ وقت چاہیئے سوچنے کے لیے۔ میں آپ کو ایک ، نہیں بلکہ ایک نہیں دو ،دوہفتے بعد بتاؤنگی ۔ ٹھیک ہے؟" یاسمین نے بات مکمل کرکے پوچھا۔

جی ٹھیک ہے مُجھے آپ کے  جواب کاانتظار رہے گا۔" آرون نے جواب دیا۔"

ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔" وہ کہہ کر جلدی سے اُٹھ کر جانے لگی  تو پیچھے سے آرون نے پُکارا":

"یاسمین!"

اُس نے رُک کر پلٹ کے پوچھا:

"جی؟"

"Take care" آرون نے مُسکراکر کہا۔

آپ بھی۔" اُس نے ہلکی سی مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور پلٹ کر تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔"

چرچ سے گھر تک کا سفر اُسے شاید اتنا طویل پہلے کبھی نہیں لگا جبکہ آج وہ بہت تیز قدموں سے قریب بھاگتی ہوئی گھر پہنچی تھی۔ گھر آکر پانی پی کر سانس بحال کی اور پھر دوسرے کام دیکھنے لگی۔ ذہن بار بار آرون کے الفاظ کی طرف جارہا تھا اور ہر تھوڑی دیر بعد اُس کے چہرے پرایک مُسکراہٹ آجاتی تھی۔دن جیسے تیسے گُزرا تو رات آگئی۔ اب اُسے نیند نہیں آرہی تھی۔ دو چار مرتبہ وہ خیالوں میں خود کو آرون کے ساتھ کار میں گھومتے ہوئے یا لنچ اور ڈنر وغیرہ کرتے ہوئے بھی سوچ چُکی تھی۔دن میں کئی بار وہ خود کو آئینے میں جاکر دیکھ چُکی تھی۔ اُس وقت بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اس طرح دھیان بھٹکتارہا توپریکٹیکلز پر فوکس مُشکل ہوجاتا۔

اُس کے پریکٹیکل ایک ہفتے میں ختم ہوجانے تھے مگر اُس نے جان کر آرون سے دو ہفتے کا وقت لیا تھا۔ وہ بچپن سے گھرمیں مُشکل وقت دیکھتی آئی تھی اور کئی بار کئی چیزوں پر سمجھوتہ بھی کرتی آئی تھی۔ وہ کوئی جذباتی قدم نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ آرون بھی عیسائی فیملی سے تھا یہ تو اطمینان کی بات تھی مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ دونوں ہی اس مُلک میں اقلیت تھے۔ لہٰذا معاشرے کا بھی خیال رکھنا تھا کہ کہیں اُس کی وجہ سے اُس کے گھر اور کمیونٹی کا نام خراب نہ ہوجائے۔ اِس لیے اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس ہفتے پریکٹیکلز کی تیاری پر ذہن مرکوز رکھنا تھا اور پھر اگلے پورے ہفتے وہ آرون کی فیملی کے بارے میں، اُس کے گھر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والی تھی۔ اِنہی سوچوں میں گُم رات کے کسی پہراُس کی آنکھ لگ گئی۔

یہ ہفتہ پریکٹیکلز میں گُزرگیا تھا اور اب وہ مُکمل فری ہوچکی تھی۔ پچھلے دنوں میں اُس نے اپنی دوستوں سے مِس فرحین کی فیملی کے بارے میں کافی معلومات جمع کرلی تھیں۔ اُن کا خاندان کرسچن کمیونٹی کے چند مُتموِّل خاندانوں میں سے ایک تھا۔ اِس کی ایک وجہ آرون کے والد کا کپڑوں کی صنعت کا کاروبار تھا لیکن اصل وجہ اُن لوگوں کے سیاستدانوں سے تعلقات تھے۔ یہ سب باتیں تھوڑی تشویش ناک تھیں کیونکہ وہ یہاں کے سیاستدانوں کی غیرقانونی سرگرمیوں کے متعلق اکثر پڑھتی رہتی تھی اور آرون کے خاندان کے اِن لوگوں سے تعلقات کی نوعیت کا اُس کو بالکل کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن پھر اُس نے خود کو تسلی دی کہ وہ تو اُس کے گھر کی ذمہ داری پوری کرے گی اُسے ابھی  اتنا کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ دل کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے وہ اس خیالی دنیا میں آرون کے دل سے ہوتی ہوئی اُس کے گھر میں بھی داخل ہوچکی تھی۔اُن کا لائف اسٹائل بھی قدرے مُختلف تھا لیکن خیر وہ تو اُس نے کُچھ عرصے میں اپنالینا تھا۔ اب اگلے چھ دنوں میں اُس نے ایک مرتبہ آرون کا گھر دیکھ کر آنا تھا اور ساری باتوں کو مدِّنظر رکھ کر اتوار سے پہلے پہلے فیصلہ لینا تھا۔

 

 
 

وہ دونوں بھی پریکٹیکلز سے فارغ ہوگئی تھیں اور اگلے ہی دن حِبانے اپنی امی کی اجازت سے فریحہ کو ڈنر پر مدعوکرلیا تھا۔ اُس کی آمد کا مقصد طیبہ سُلطان سے حِبا کے بی  ایس اسلامک لرننگ میں داخلے کی اجازت لینا تھا۔ یہ اجازت مل جاتی تو الہُدٰی میں ایڈمیشن تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ مغرب کے بعد فریحہ سُلطان وِلا پہنچ چکی تھی۔ حِبا نے اُس کا استقبال کیا تھا پھر وہ طیّبہ سُلطان کو سلام کرکے، اپنے والدین کی خیریت بتاکر، حِبا کے ساتھ اُس کے کمرے میں چلی گئی۔

حِبا کا بیڈروم اُن کی پسندیدہ جگہ تھی جہاں پر بیٹھ کر وہ دونوں پڑھائی کے علاوہ دُنیا بھرکی باتوں پر تبصرے کرتی تھیں، مُستقبل کے منصوبے بناتی تھیں اور مونوپولی اور کیرم  بھی کھیلا کرتی تھیں۔ اس وسیع کمرے کے ایک کونے میں اسٹڈی ٹیبل تھی جس پر لیپ ٹاپ اور کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اسٹڈی ٹیبل کے ساتھ ایک کُرسی رکھی ہوئی تھی۔  دوسرے کونے میں دیوار میں نصب الماری بنی ہوئی تھی جہاں حِبا کےکپڑے اور زیورات رکھے ہوئے تھے۔ الماری کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل تھی جس میں دُنیا جہاں کے پرفیومز ااور میک اپ کا دوسرا سامان موجود تھا۔ کمرے کے وُسط میں ایک کنگ سائز کا بیڈ تھا جس کے سامنے کی دیوار پر بڑی گھڑی نسب تھی۔ بیڈ کی پچھلی سائیڈ کی دیوار پر ایک بڑی پینٹگ تھی جس پر سورہ الناس اور سورہ الفلق لکھی ہوئی تھیں۔ بیڈ کے دائیں طر ف کی دیوار پر کھڑکیاں تھیں جو بیرونی گیٹ کےساتھ موجود باغ کی طرف کھلتی تھیں۔ اِس وقت کھڑکیاں بند تھیں اور وہاں پردے ڈلےہوئے تھے۔

تُوکرلے گی ناں بات ٹھیک سے؟" حِبا نے کمرے میں آکر اسٹڈی ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔"

کونسی بات؟" فریحہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے انجان بن کر پوچھا۔"

بہن تُو کیوں آئی ہے یہاں؟" حِبا نے کُرسی پر آگے ہوکر پوچھا۔"

ڈنر پر انوائٹ کیاہےتُو نے اس لیے۔" اُس نے سادگی سے جواب دیا تو حِبا کے چہرے پر مُسکراہٹ آگئی۔"

دیکھ فریحہ! یہ حرکتیں چھوڑدے۔ آج پلیز تھوڑی سنجیدہ ہوکر امی سے بات کرنا تاکہ وہ اجازت دے دیں تیرے ساتھ آگے پڑھنے کی۔"اُس نے بہت پیار سے درخواست کی۔"

"ہاں یار میں پکّی تیاری کرکے آئی ہوں تُو ٹینشن نہ لے اور پھر انکل بھی ہوں گے تو اور آسان ہوجائے گا۔"فریحہ نے تسلی دی تو وہ مطمئن ہوگئی اور پھر وہ لوگ کیرم کھیلنے لگے۔ کچھ دیربعد ملازمہ نے آکر بتایا کہ کھانا لگ گیا تھا اور طیبہ سلطان نے اُن کو بلایا تھا تو وہ دونوں کھانے کی ٹیبل پر پہنچ گئیں۔ کھانے کی ٹیبل پر ایک طرف طیبہ سلطان بیٹھی تھیں اور وہ دونوں آکراُن کے سامنے والی سائیڈ پر ساتھ ساتھ بیٹھ گئیں۔ طیّبہ سُلطان کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھاتے ہوئے کسی نہ کسی کتاب کا مُطالعہ کیا کرتی تھیں۔ اگر کسی سے کوئی بات کرنی ہوتی تھی تو کتاب رکھ کر تسلی سےبات کرتی تھیں۔ اِس وقت بھی اُن کے سامنے ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔

امی!ابو نہیں آئے؟"حِبا نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔"

“نہیں بیٹا اُن کی کال آئی تھی کہ اُن کی کوئی میٹنگ ہے دیر ہوجائے گی۔" طیبہ سلطان نے بتایا تو حِبا کا دل بیٹھنے لگا۔ اُس نے اپنے بائیں طرف گردن گھماکر فریحہ کو دیکھا جو مسکین سی شکل بناکر اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

فریحہ بیٹا چلو کھانا شروع کرو ناں آپ۔ حِبا آپ اِسے نکال کر دو بریانی اور دیکھو اچھی طرح کھاناتکلُّف بالکل  مت کرنا۔" انہوں نے دونوں کو ہدایت کی۔"

"جی امی یہ کھانے کے معاملے میں بالکل تکلُّف نہیں کرتی ہے۔" حِبا نے اُس کی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئےآہستہ سے کہا جسے سُن کر فریحہ کے چہرے پر مُسکراہٹ آگئی۔اب وہ لوگ کھانا کھانے لگے تھے۔

اب کیا کرنا ہے؟"حِبا نے اپنی پلیٹ کے ساتھ رکھے موبائل پر میسج ٹائپ کرکے سینڈ کا بٹن دبایا اور پھر کھانا کھانے میں مصروف ہوگئی۔"

برابر میں بیٹھی فریحہ کے موبائل کی لائٹ روشن ہوئی تو اُس نے میسج پڑھ کر جواب لکھا اور بھیج دیا۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے"

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے" فریحہ کا جواب پڑھ کر وہ غصے سے لال ہوگئی۔ اُس نے ایک گلاس پانی پیا اور صبر کرکےدوبارہ  کھانا کھانے لگی۔

فریحہ بیٹا اب آگے کا کیا پلان ہے آپ کا؟کہاں ایڈمیشن لینا ہے؟" طیبہ سلطان نے کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے اُس سے پوچھا۔"

"جی آنٹی میں تو آپ کی ہی طرح دین کا پیغام دُنیا بھر میں پہنچانا چاہتی ہوں اس لیے بی ایس اسلامک لرننگ میں ایڈمیشن لوں گی ان شاء اللہ۔" اُس نےاپنے ہاتھ میں موجود چمچہ پلیٹ میں رکھ کر انتہائی معصومیت سے اپنے ٹریڈمارک اسٹائل میں سر کا دوپٹّہ دُرست کرکے جواب دیا۔

ماشاءاللہ ماشاء اللہ بیٹا!بہت اچھا فیصلہ کیا ہے آپ نے۔ میں تو حِبا سے اکثر کہتی ہوں کہ فریحہ میری دوسری بیٹی ہے۔ حِبا کی کوئی بہن ہوتی تو بالکُل آپ کے جیسی ہوتی۔  اللہ آپ کو کامیاب کرے آمین۔"" طیبہ سلطان نے اسے بہت دِل سے دُعا دی۔

حِبا نے سوچا کہ اُسی وقت طیّبہ سُلطان کو بتادے کہ اُن کی دوسری بیٹی رات تین بجے تک نیٹ فلکس پر کونسی تعلیم حاصل کرتی ہے مگر پھر اُس نے  فریحہ کی طرف دیکھ کر چہرے پرمسکراہٹ لاتے ہوئے دو مرتبہ ماشاءاللہ  کہنے پر ہی اکتفاکیا۔

فریحہ نے دوبارہ چاول نکال کر کھاناشروع کیے تو حِبا کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔ اُس نے ایک اور میسج ٹائپ کرکے بھیجا۔

"ذلیل لڑکی! توُ بس کھانا ٹھوسنے اور ایکٹنگ کرنے آئی تھی کیا؟ کب کرے گی میری بات؟"

فریحہ نے اُس کا میسج پڑھ کر پانی پیا پھر بات شروع کی:

"آنٹی میں اگلے ہفتے الہُدٰی میں تعلیم التجوید کے کورس میں ایڈمیشن لے رہی ہوں،  پانچ مہینے کا کورس ہے توآپ  حِبا کا بھی داخلہ کروادیں میرے ساتھ۔"

"بیٹا یہ تو aptitude ٹیسٹ کے لیے ایڈمیشن لے گی کسی انسٹیٹیوٹ میں۔ میرا ارادہ ہے کہ اسے کمپیوٹر کے شعبے میں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ دلواؤں۔" طیبہ سلطان نے حِبا کے حوالے سے اپنا ارادہ بتایا۔

تو یہ اسلامک لرننگ میں ایڈمیشن نہیں لے گی؟" فریحہ نے بھرپور حیرت سے پوچھا۔ اُس کےچہرے کے تاثرات دیکھ کر حِبا نے دل میں کہا کہ اس کو واقعی اداکارہ بننا چاہیئے۔"

"بیٹا اس نے تو کہا تھا لیکن آپ کو تو معلوم ہے کہ اِسے زیادہ لوگوں کے سامنے بولنے میں مسئلہ ہوتا ہے اور ہمارے شعبے میں تو اجتماع کے سامنے ہی بات کرنی پڑتی ہے تو یہ کس طرح کام کرپائے گی پروفیشنل لائف میں۔  بس اس لیے اسے کہیں اور داخلہ دلوانے کا سوچا ہے اور ویسے بھی اس کے نمبر ماشاءاللہ بہت اچھے ہیں اِسے کسی اچھی جگہ آرام سے ایڈمیشن مل جائے گا۔" اُنہوں نے بات ختم کرکے حِبا کی طرف مُسکراکر دیکھا۔

ویسے آنٹی آج کل تو آن لائن ویبینار کا زمانہ ہے، اس لیے زیادہ تر دین کی تبلیغ کاکام بھی آن لائن ہونےلگا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے سامنے جاکر بات کرنے کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔" فریحہ نے ایک" اور کوشش کی۔

جی امی آپ بھی تو آن لائن سیشنز لیتی ہیں زوم پر، تو وہ توآسان ہوگا ناں اور وقت کے ساتھ اِن شاء اللہ میں لوگوں کے سامنے بولنا بھی سیکھ جاؤں گی۔"حِبا نے بھی گفتگومیں حصہ لیا۔"

"بالکل آپ دونوں ٹھیک کہہ رہی ہیں کہ اب آن لائن بھی کام ہونے لگا ہے لیکن اب بھی سیمینار کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ خیر میں حِبا کے ابو سے مشورہ کروں گی اس بارے میں کیونکہ حتمی فیصلہ تو وہی کریں گے۔" طیبہ سلطان نے کہا تو اُن دونوں کے چہرے پر مُسکراہٹ آگئی ۔

کھانے کے بعد کُچھ دیر مزید بیٹھ کر فریحہ واپسی کی تیاری کرنے لگی۔ حِبا اُسے الوداع کہنے مرکزی دروازے تک آئی تھی۔

شُکریہ بہن امی سے بات کرنے کے لیے۔امی میرے فوبیا کی وجہ سے بہت ڈرتی ہیں ۔ میں اُن سے بات کرتی تو وہ ایموشنل ہوجاتیں اور پھر مُشکل ہوجاتا۔" حِبا نے دروازے کے پاس رُک کر کہا۔"

"Anything for you my darling" فریحہ نے اُس سے گلے مل کر کہا اور پھر الوداع کہہ کر اپنے گھر روانہ ہوگئی۔

اگلی صبح طارق سلطان لان میں ناشتے کی چھوٹی ٹیبل کے ساتھ کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے ۔ یہ اُن کا روز  کا معمول تھا وہ اور طیبہ سلطان، ناشتہ باہر لان میں کھلی فضا میں  کرتے تھے۔ طیبہ سلطان اندر کچن میں ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔ اُن کے آنے سے پہلے حِبا لان میں والد کے پاس آگئی۔ اُس نے آتے ہی سلام کیا اور ٹیبل کے ساتھ رکھی باقی دو کرسیوں میں سے ایک کرسی طارق سلطان کی کرسی کے قریب رکھ کر اُس پر بیٹھ گئی۔ وہ بھی اخبار میز پر رکھ کر بیٹی کی طرف متوجہ ہوگئے۔

خیریت آج ہمارا چاند صبح صبح کیسے نکل آیا بیٹا؟" انہوں نے مسکراکر پوچھا۔"

جی ابو! ایک بہت ضروری بات کرنی تھی مجھے۔" حِبا نے بھی مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔"

"جی جی کہیے کیا بات کرنی تھی آپ نے۔" طارق سلطان نے کہا تو حِبا نے پچھلے دن کی پوری بات اُن کے گوش گُزار کردی۔ اتنے میں طیبہ سلطان بھی ناشتہ لےکر وہاں آگئیں۔ وہ وہاں موجودآخری خالی کرسی پر براجمان ہوگئیں۔

کیا کِچھڑی پک رہی ہے یہاں باپ بیٹی میں؟" اُنہوں نے  چائے کا کپ طارق سلطان کے قریب رکھتے ہوئے پوچھا۔"

ہماری شہزادی نے بتایا کہ آپ نے ہم سے کُچھ بات کرنی ہے اِس کے ایڈمیشن کے سلسلے میں۔" انہوں نے بیگم کو جواب دیا۔"

"آپ کی شہزادی لگتا ہے سیاستدان بنے گی بڑی ہوکر۔ کل اِس نے اپنی سہیلی کو بُلایا تھا وکالت کے لیے اور آج سیدھا جج صاحب کے پاس پہنچ گئی ہے سفارش لے کر۔"طیبہ سلطان نے چائےکا گھونٹ لے کر کہا۔

ارے کہاں طیبہ بیگم! سُلطان ولا کی چیف جسٹس تو آپ ہیں، ہم تو پچھلے اُنیس سال سے آپ کی عدالت میں پیشیاں لگارہے ہیں۔" طارق سلطان کی بات پر حِبا کو ہنسی آگئی۔"

توبہ ہے طارق صاحب۔" طیبہ سلطان نے  بس اتنا ہی کہا اور پھر اپنی ہنسی روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ کر سرکو دائیں بائیں ہلانے لگیں۔"

ہم تو بس سچائی بتارہے تھے کیوں بیٹا؟"اب انہوں نے حِبا کی طرف دیکھ کر کہا۔"

جی ابو!" اُس نے ہنستے ہوئے  جواب دیا۔"

دیکھیں یہ بضِد ہے اسلامک لرننگ میں داخلے کے لیے لیکن آگے چل کر کوئی مسئلہ ہوا تو پھر کیا ہوگا یہ سوچ لیں۔" طیبہ بیگم نے اصل موضوع کی طرف آکر کہا۔"

بھئی اللہ مالک ہے، ہماری بیٹی کی نیت اچھی ہے اللہ آسانی کرے گا اِن شاء اللہ  ۔ اور پھر فریحہ بیٹی بھی تو ہوگی ساتھ میں۔" انہوں نے بیگم کو تسلی دی۔"

اور اس کا فوبیا؟" اُن کو ابھی بھی ڈر تھا۔"

ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ وقت کے ساتھ کم ہوجائے گا اور وہاں لڑکیوں میں رہ کر آہستہ آہستہ اعتماد میں اضافہ ہوگا تو زیادہ لوگوں کے سامنے بات کرنا آجائے گا۔" انہوں نے مزید سمجھایا۔"

"ٹھیک ہے جیسے آپ دونوں کی مرضی۔ اللہ ہماری بیٹی کو کامیاب کرے باقی میں بھی اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گی کہ اِسے کوئی پریشانی نہ ہو۔" طیبہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھ کر کہا تو حِبا خوش ہوگئی۔ اُسے اجازت مل چکی تھی ۔ وہ امی ابو کو سلام کرکے فریحہ کو کال پر یہ خوشخبری سُنانے کے لیے گھر کے اندر چلی گئی۔

 

 
 

آج منگل تھا۔ وہ صبح اُٹھ کر ماں کو بتاچُکی تھی کہ آج اُس نے دوست کی طرف جانا تھا۔ اُس نے سوچا  کہ شاید زارا پوچھے کہ کیوں جانا تھا؟ کیا کام تھا؟ مگر زارا نے بیزاری سے "ٹھیک ہے" کہہ دیا تھا۔ وہ جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی اُس نے آج تک والدین سے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اپنے طور پر آج بھی اُس نے سچ ہی بولاتھا کیونکہ وہ دوست کےپاس جاتی اور پھر اُس کے ساتھ آرون کا گھر دیکھنےجانا تھا۔ مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ اُس نے آج تک والدین سے کُچھ چھُپایا بھی نہیں تھا۔ ہم لوگ ایساہی کرتے ہیں کہ اکثر اپنی سہولت دیکھ کر اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور خود کو جھوٹی تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم کُچھ غلط نہیں کررہے تھے۔ وہ بھی یہی کررہی تھی۔ انجان لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا، اُس کی شادی کی پیشکش، یہ سب کُچھ والدین سے چھُپاکر بھی وہ مُطمئن تھی۔

دس بجے وہ اپنی دوست کے گھر پہنچ گئی۔ دوست سے اُس نے کہا تھا کہ مِس فرحین سے پریکٹیکلز کے بارے میں کُچھ بات کرنی تھی۔وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور کُچھ دیر بعد کراچی کے ایک پوش علاقے میں موجود عالیشان بنگلے کے مرکزی دروازے کے سامنے موجود تھے۔ بنگلے کے باہر دو گاڑیاں کھڑی تھیں جن میں سے ایک گاڑی وہی تھی جو آرو ن کے پاس ہوا کرتی تھی۔ یاسمین اِس سب سے بہت مرعوب ہوگئی تھی۔ دوست نے اندر چلنے کا پوچھا  تو یاسمین نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ بنگلہ دیکھ کر بہت نروس ہوگئی تھی اور اُسے اندر جاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا لہٰذا وہ کالج میں ہی مِس فرحین سے بات کرلے گی۔دوست نے کہا کہ کُچھ نہیں ہوگا اتنی دور آئی تھی توبات کرلے مگر وہ نہیں مانی۔ پھر وہ لوگ واپس آگئے۔

گھر پہنچی تو زارا کام پر جاچکی تھی۔ وہ عاشِر کی خیر خیریت پوچھ کر اپنے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی اور پھر سے خوابوں کی دُنیا میں سفر شروع کردیا۔ کبھی وہ خودکو بنگلے میں مُلازموں پر حُکم چلاتے ہوئے تصوُّرکرتی تو کبھی آرون کے ساتھ لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے دیکھتی۔تخیُّل کے اِس حسین سفر کا فسُوں موبائل پر آنے والی کال کی آواز سے ٹوٹا۔ اُس نے دیکھا کہ وہ عاشِر کی کال تھی۔ موبائل وہیں رکھ کر جھٹ سے اُس کے کمرے کی طرف بھاگی۔وہ بیڈ پر موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔

کیا ہوا عاشِر کُچھ چاہیے تُم کو؟" اُس نے کمرے میں داخل ہوکر بھائی سے پوچھا۔"

نہیں آپی! بس کافی دیر سے پڑھ رہا تھا تو سوچا کُچھ دیر آپ کے ساتھ لوڈو کھیل لوں۔ آپ مصروف تھیں کیا؟ میں اِتنی دیر سے کال کررہا تھا۔" عاشِر نے شکایت کی۔"

نہیں شایدبیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی تھی۔" اُس نے بہانہ بنایا۔"

ایک بات بولوں آپی؟" عاشِر نے پوچھا۔"

ہاں ہاں بولو۔" اُس نے اپنے تاثرات نارمل رکھتے ہوئے کہا۔"

آج کل آپ کا رویہ  کُچھ الگ الگ سا نہیں ہے؟" اُس نے سوال کیا۔"

کیا مطلب؟کیا میں تُمہارا خیال نہیں رکھ رہی؟" یاسمین نے سامنے سے سوال کیا۔"

"نہیں یار آپی ! میں اپنی بات نہیں کررہا۔ میں جنرل بات کررہا ہوں۔ آپ آج کل کہیں کھوئی کھوئی رہتی ہو۔ بات کرتے کرتے اچانک کسی خیال میں گُم ہوجاتی ہو۔ پھرآواز دینے پر اچانک چونک جاتی ہو اور ہاں آپ بار بار خودکو شیشے کے سامنے بھی دیکھتی ہو۔" عاشِر نے اُس کے معمولات بتائے جو وہ خود بھی جانتی تھی کہ وہ اب یہ سب کررہی تھی۔

نہیں ایسا کُچھ بھی نہیں ہے۔ بس رزلٹ وغیرہ کی کُچھ فکر ہے اور اپنا خیال تو سب کو رکھنا چاہیئے اِسی لیے آئینے میں بس چیک کرلیتی ہوں ایک دو بار۔"اُس نے پھر بات بنائی۔"

خیر ہے  آپ تو بہت اچھی ہو پڑھائی میں۔ سب ٹھیک ہوگا آپ ٹینشن مت لو۔ آؤ لوڈو کھیلتے ہیں۔" عاشِر نے اُسے تسلی دی۔ پھر وہ لوڈو کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔"

اُس دن رات کے کھانے پر ہونے والی بحث کے بعد کافی دن ہوگئے تھے۔ تب سے اب تک زارا اور یاسمین میں کوئی تکرار نہیں ہوئی تھی۔ زارا نے بھی ٹوکنا کم کردیا تھا اور یاسمین بھی کوئی بات ہوتی تو نظرانداز کردیتی تھی۔ایک رات یاسمین عاشِر کے کمرے میں جانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر آئی تو اُس نے ماں  کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار دیکھے۔ زارا اپنے کمرے میں جاکر لیٹی تو یاسمین اُسے کمرے کے دروازے سے کھڑی ہوکر دیکھنے لگی۔ زارا لیٹےلیٹے  ہی وقفےوقفے سے اپنے ہاتھ سے اپنا پیر دبارہی تھی۔ تب ہی یاسمین اندر جاکر بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور ماں کا پیر دبانے لگی تو زارا پریشان ہوکر اُٹھ کر بیٹھ  گئی۔

کیا کررہی ہو یاسمین!ڈرادیا تُم نے مُجھ کو۔" زارا نے تھوڑا سختی سے کہا تویاسمین روہانسی ہوگئی۔"

ماما !میں تو آپ کے پیر دبارہی تھی۔" اُس نے صفائی پیش کی۔"

کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج اچانک سے کیوں خیال آگیا تُم کو؟ جاؤ عاشِر کے پاس رات ہوگئی ہے۔" زارا نے اُسے جھڑک کر کہا۔"

وہ اُٹھ کر عاشِر کے کمرے میں چلی گئی اور ہمیشہ کی طرح اُداس ہوکر لیٹ گئی۔ عاشِر کے پوچھنے پر اُس نے ساری بات اُسے بتادی۔

آپی یہ سب مت سوچا کرو۔ آپ بس اپنی خوشی دیکھو اور خوش رہا کرو۔ ٹائم کے ساتھ یہ سب خود ٹھیک ہوجائے گا۔ " عاشِر نے اُسے پھر تسلی دی۔"

وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور عاشِر کی طرف دیکھ کر مُسکرائی۔ عاشِر بھی چہرے پر مُسکراہٹ لے آیا۔

ایک بات پوچھوں تُم سے؟" یاسمین نے بھائی سے سوال کیا۔"

جی آپی!" اُس نے جواب دیا۔"

"تُم اتنا پازیٹو کیسے رہ لیتے ہو؟ مطلب میں جانتی ہوں تُم کو اِس ایکسیڈنٹ کے بعد بہت سے بُنیادی کام کرنے میں مسئلہ ہوتا ہے مگر تُم کبھی بھی کمپلین نہیں کرتے ہو۔ اُلٹا تُم مُجھے حوصلہ دیتے ہو جبکہ میرے مسائل اتنے بڑے نہیں ہوتے ہیں پھر بھی میں اکثر اُن کو لیکر پریشان رہتی ہوں۔" یاسمین نے اُس کی معذوری کے حوالے سے پوچھا۔

"پازیٹو ہونا پڑتا ہے آپی! اِس کےعلاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ آپ کمپلین کرتی ہو کیونکہ آپ کے پرابلم حل ہوسکتے ہیں مگر میرے کمپلین کرنے سے یا پریشان ہونے سے میں ٹھیک تو نہیں ہوسکتا ہوں ناں۔ ہاں کبھی کبھی جُھنجھلاہٹ ہوتی ہے جب کوئی کام نہیں ہوپاتا یا دیر سے ہوتا ہے لیکن آپ سب ہوتے ہو ناں میرے ساتھ، تو کوئی نہ کوئی ہیلپ کردیتا ہے۔"عاشِر نے اپنی بات مُکمل کی تویاسمین نے اُس کے پاس بیٹھ کر اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

"تُم بہت ہمت والے ہو اور تُم کو کس نے بولا کہ تُم ٹھیک نہیں ہوسکتے ہو؟ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ وقت گُزرنے کے ساتھ راڈ کی مدد سے پیر کی ہڈی مضبوط ہوجائے گی اور تُم بالکُل ٹھیک ہوجاؤگے۔چلو اب سوجاؤ۔ "

کُچھ دیر میں عاشِر سوگیا تو یاسمین اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔ زارا کو تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ اُس نے بیٹی کو بلاوجہ ڈانٹ دیا تھا تو وہ اُٹھ کر یاسمین کےکمرے میں گئی جہاں یاسمین مُخالف سمت کروٹ لیکر لیٹی ہوئی تھی۔ زارا نے اُسے دو مرتبہ آواز دے کر جگانے کی کوشش کی مگر یاسمین نے جان کر آنکھ بند کیےرکھی۔ تب زارا واپس چلی گئی۔

اتوارکا دن آگیا۔یاسمین، ہمیشہ کی طرح دیر سے چرچ گئی تھی مگر آج اُس کی تیاری غیر معمولی تھی۔  اپنے لمبے گھنگھریالے بال اُس نے  کھُلے رکھے تھے۔  زارا، عاشِر کے ساتھ گھر واپس آگئی تھی۔  یاسمین چرچ سے نکل  کرگارڈن میں ہی آرون کا انتظار کرنے لگی۔  وہ بھی کُچھ دیر بعد آگیا۔ 

سلام۔  کیسی ہیں یاسمین؟" اُس نے بات کا آغاز کیا۔"

سلام میں ٹھیک ہوں۔آپ کیسے ہیں؟" یاسمین نے بھی  خیریت پوچھی۔"

دو ہفتے سے طبیعت ایسی ہی تھی اب بہت اچھا ہوں۔ " اُس نے جواب دیا ۔"

کیوں کیا ہوا آپ کو؟" یاسمین نے فکرمند ہوکر پوچھا۔"

آپ سے نہیں ملا تھا ناں دوہفتے تک۔" اُس نے شرارت سے کہا تو یاسمین نے نظریں جُھکالیں۔"

پھر کیا فیصلہ کیا آپ نے؟" اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔"

اگر مُجھے انکار کرنا ہوتا تو میں اب تک جاچُکی ہوتی۔" یاسمین نے نظر اُٹھائے بغیر ہی جواب دیا۔"

"تھینک یو یاسمین۔ میں آپ کو بہت خوش رکھوں گا۔" آرون خوش ہوگیا  اور کئی دعوے کرنے لگا۔ اُس نے جلد اپنے والدین سے بات کرنے کا یقین دلایا۔   کُچھ دیر بعد یاسمین نے جانے کا کہا تو آرون نے اُسے اپنا موبائل نمبر دیا اور ہراتوار کو مُلاقات کا مُطالبہ کرنے لگا جسے  کُچھ ہچکچاہٹ کے بعدیاسمین نے مان لیا۔

 

 
 

سُلطان ولا میں طارق سُلطان اور طیبہ سُلطان لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تب ہی حِبا سُلطان وہاں آکر سلام کرکے اُن کے ساتھ بیٹھ گئی۔  وہ الہُدیٰ میں اپنا داخلہ کرواکر ماں باپ کو اطلاع دینے اور چھُٹی پر چلنے کی بات کرنے کے لیے آئی تھی۔

ابو میرا ایڈمیشن ہوگیا الہُدیٰ میں۔" اُس نے خوشی سے والد کو بتایا۔"

بہت بہت مُبارک ہو بیٹا!کلاسز کب سے شروع ہیں آپ کی؟" طارق سُلطان نے بیٹی کو مُبارکباد دے کر پوچھا۔"

کلاسز تو دو ہفتے بعد اسٹارٹ ہیں۔" اُس نے جواب دیا۔"

اچھی بات ہے د و ہفتے آپ آرام کرلینا۔ بہت محنت سے پڑھائی کی ہے میری بیٹی نے۔" طیبہ سُلطان نے بھی گُفتگو میں حصّہ لیا۔"

امی پریکٹیکلز کے بعد ابونے چھُٹیوں پر لیکر جانے کا کہا تھا۔" اُس نے والد کو اُن کی کہی ہوئی بات یاد کرائی۔"

ارے ہاں ہمیں تو یاد ہی نہیں تھا کہ ہم نے اپنی شہزادی کو چھُٹیوں پر باہر لے جانا تھا۔" طارق سُلطان نے بیٹی کی بات سُن کر کہا۔"

لیکن طارق صاحب آپ تو بتارہے تھے کہ ابھی پچھلے ہفتے نیا پراجیکٹ شروع ہوا ہے۔ اُسے چھوڑکر جائیں گے کیا؟" طیبہ سُلطان نے کاروبار کے حوالے سے پوچھا۔"

"خاتون آپ بےفکر رہیں۔ میں سُپروائزرز کو سب سمجھادوں گا۔ وہ لوگ دو ہفتے دیکھ لیں گے سب کام اور پھر میں بھی رابطے میں رہوں گا سب کے ساتھ۔ اب انسان جن لوگوں کے لیے اتنی محنت کرکے پیسے کمارہا ہو، اُن کو سال میں زندگی کے دو ہفتے بھی نہیں دے سکے تو پھر کیا فائدہ ساری محنت کا۔" اُن کی بات سُن کرحِبا خوش ہوگئی۔

پھر میں تیاری شروع کروں؟" اُس نے  والدہ سے پوچھا۔"

"بالکُل آپ تیاری شروع کردیے گا لیکن پہلے آپ ذرا یہیں ٹھہریں کیونکہ مُجھے آپ کے مُتعلق آپ کے والد سے کُچھ بات کرنی ہے۔"طیبہ سُلطان نے کہا تو دونوں باپ بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف پُرتجسُّس نظروں سے دیکھا پھر طیبہ سُلطان کی طرف مُتوجہ ہوگئے جنہوں نے سلسلہ کلام جوڑا:

"طارق صاحب میں جانتی ہوں ابھی اِس کی اتنی زیادہ عُمر نہیں ہے لیکن فٹنس کا خیال اِسے تھوڑا بہت رکھنا چاہیئے۔ میں نے کتنی مرتبہ اپنے ساتھ واک پر چلنے کا کہا ہے مگر آپ کی لاڈلی نے ایک دن میری بات نہیں مانی ۔ پھر میں نے جوگنگ مشین (وہ ٹریڈمِل کو جوگنگ مشین کہتی تھیں) منگواکر دی کہ چلو اپنے کمرےمیں ہی کُچھ دیر دوڑ لے گی مگر آپ کی شہزادی نے اُسے اسٹور روم میں رکھوادیا کہ وہ کمرے میں جگہ تنگ کررہی ہے۔ آج کل فٹنس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اللہ نے جو نعمتیں اعضاء کی شکل میں عطا فرمائی ہیں اُن کی قدر کرنی چاہیئے۔ یہ ابھی سے عادت ڈالے گی تو آگے بھی فائدہ ہوگا۔اب آپ ہی اِسے سمجھائیں۔" اُنہوں نے اپنی بات مُکمل کی تو حِبا نے والد کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر مُسکراہٹ تھی۔ اُنہوں نے حِبا کی طرف دیکھتے ہوئے ہی بات شروع کی:

"بیٹا آپ کی امی کو آپ کی بہت فکر ہے۔ اِس لیےوہ چاہتی ہیں کہ آپ اپنی صحت اور فٹنس وغیرہ کا خیال رکھیں اور ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ اپنی امی کے ساتھ واک پر جایا کریں۔ ٹھیک ہے؟"بات ختم کرکے اُنہوں نے حِبا سے پوچھا۔

"جی ابو! میں اب سے اِن شاء اللہ امی کے ساتھ جایا کروں گی دودن۔ لیکن ابو یونیورسٹی میں تو آپ کو معلوم ہےاتنی دور د ور تک ڈپارٹمنٹ ہوتے ہیں، تو یونیورسٹی شروع ہونے کے بعد تو ویسے ہی واک ہوجایا کرے گی میری۔" حِبا نے بادل نخواستہ ہامی بھری مگر ساتھ ہی یونیورسٹی کے آغاز کے بعد واک نہ کرنے کا عُذر بھی پیش کردیا۔ اُسے اِس سب میں بالکُل بھی دلچسپی نہیں تھی۔

شاباش بیٹا! اصل میں آپ کی امی ہمیشہ سے اتنی فٹ رہی ہیں تو یہ آپ کوبھی ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔" طارق سُلطان نے حسبِ عادت بیگم کی تعریف بھی کردی۔"

آپ پھر شروع ہوگئے طارق صاحب۔ چلیں ہم ماں بیٹی جارہے ہیں تیاری کرنے، آپ بتادیں ٹکٹ کب کی بُک کریں گے؟"طیبہ سُلطا ن نے اُٹھتے ہوئے سوال کیا۔"

کل شام چھ سے آٹھ بجے تک کی فلائٹ ہوگی اِن شاءاللہ۔" اُنہوں نے اطلاع دی تو حِبا والدہ کے ساتھ گھر کے اندرونی حصّے کی طرف چلی گئی۔"

اگلے دن صُبح ہی طارق سُلطان نے تمام سُپروائزرز کو بُلاکر اگلے دو ہفتے کے کام کے لیے ہدایات دیں۔پھر اُنہوں نے اعلان کیا  کہ دو ہفتے بعد واپسی پر وہ مُلازمین کے لیے پینشن کی سہولت بھی شروع کرنے والے تھے۔ وہاں اکبر بھی موجود تھا۔ اُنہوں نے  اکبر کو بتایا کہ یہ پینشن کا قانون سب سے پہلے ہمارے خلیفہ حضرت عُمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے شروع کیا تھا۔ وہ اکبر سمیت دوسرے مُلازمین کو بھی اکثر  دین کی باتیں بتاتے رہتے تھے۔

دوپہر میں فریحہ اُسے الوداع کہنے آگئی تھی اور باہر سے منگوانے کے لیے اپنی ضرورت کی اشیاء کی ایک لمبی فہرست بھی اُسے دے گئی تھی۔شام میں وہ لوگ سعودی عرب کے لیے روانہ ہوگئے۔وہاں عُمرہ کرکے ایک ہفتے بعد اُنہیں دوبئی جانا تھا۔

 

 
 

یاسمین کا نیا موبائل آگیاتھا اور اُس کا آرون کے ساتھ موبائل پر باتوں کا سلسلہ شروع ہوچُکا تھا۔ وہ  روزانہ رات میں عاشِر کے سونے کے بعد اپنے کمرے میں جاکر  واٹس ایپ پر آرون سے بات کرتی تھی۔  وہ دونوں  مُستقبل کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ اتوار کے روزکُچھ دیر کے لیے وہ اُسی چرچ کے ساتھ والے گارڈن میں بیٹھ کر بات کرتے تھے۔ یاسمین اُسے اکثر اپنے والدین سے بات کرنے کے لیے کہتی تھی مگر آرون نے کہا تھا کہ بہت جلد وہ ایک بڑی کاروباری ڈیل اپنی کمپنی کو دلانے والا تھا۔  اُس ڈیل کے طے ہونے کے  بعد اُس کے والدین خوش ہوجاتے اور  تب ہی وہ  اُن سے بات کرنے والا تھا تاکہ وہ جلدی سے ہاں کہہ دیں۔

یاسمین کو اُس کی بات سے تسلی ہوگئی تھی۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہی خوش ہونے لگی تھی کہ بس اب کُچھ دن کی بات تھی پھر وہ  اپنے گھر سے آرون کے بنگلے میں جانے والی تھی۔زارا تو پہلے ہی اُس سے کام کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتی تھی اب اکبر بھی کام کی مصروفیت بڑھنے کی وجہ سے اُس سے کم ہی مل پاتا تھا۔ وہ رات میں اُن سب کے سونے کے بعد گھر آتا تھا اور صُبح بھی نو،دس بجے تک کام پر چلاجاتا تھا۔  یاسمین کا زیادہ تر  وقت گھرپر عاشر کے پاس ہی گُزرتا تھا۔ آرون کے ساتھ خوابوں کی دُنیا میں رہتے ہوئے اُسے آگے پڑھائی کے لیے کہیں ایڈمیشن لینے کا بھی ہوش نہیں رہا تھا۔ زارا کے ساتھ اب  اُس کی  بحث بھی نہیں ہوتی تھی اِس لیے زارا کو بھی اُس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔  اگلے ہفتے یاسمین کا برتھ ڈے تھا۔ ہفتے کے درمیان میں کسی دن ملنا مُشکل ہوجاتا اِس لیے آرون نے اُسے اتوار کو ہی تحفہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ہر اتوار کی طرح اس اتوار کو بھی وہ دیر سے چرچ گئی تھی۔ سفید رنگ کےشلوار قمیض میں وہ آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ زارا کو بھی اُس کی تیاری دیکھ کر تھوڑی حیرت ہوئی تھی۔ ماں کے استفسار پر اُس نے کہا تھا کہ عبادت کے لیے اچھے کپڑوں میں آنا چاہیئے اِس لیے آج اچھے سے تیار ہوکر آئی تھی۔ زارا مُطمئن ہوکر عاشِر کو لیکر گھر آگئی تھی۔ زارا کےجانے کے بعد اُس نے اپنے اور آرون کے ساتھ کی دُعا کی، پھر گارڈن میں جاکر بینچ پر بیٹھ گئی۔ کُچھ دیر بعد آرون آگیا۔ اُس نے ایک بہت  خوبصورت اور قیمتی ہار یاسمین کو تحفے میں دیا۔ یاسمین جیسے خوشی سے ہوا میں اُڑرہی تھی۔اُسے بس اب اُس ڈیل کا انتظار تھا۔

اگلے ہفتے کے دوران وہ ڈیل ہوگئی تھی۔ ڈیل کے بعد آرون نے اپنے والدین سے اپنی اور یاسمین کی بات کی تو اُن لوگوں نے صاف انکار کردیا تھا۔ آرون نے آفس سے ہی یاسمین کو کال کی۔

سلام یاسمین! کیسی ہیں آپ؟" آرون نے کال ریسیو ہوتے ہی کہا۔"

سلام آرون! میں ٹھیک ہوں۔ آپ بتائیں کیا بات ہوئی؟ میں آپ کی ہی کال کا انتظار کررہی تھی۔" یاسمین نے جلدی سے پوچھا۔"

میں نے بات کی تھی یاسمین! مگر مام اور ڈیڈ نہیں مان رہے ۔" اُس نے جیسے کوئی بم یاسمین پر گرادیا۔"

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ کیوں نہیں مان رہے وہ؟ کیا وجہ ہے؟" یاسمین نے بےیقینی سے کئی سوال کیے۔"

وہ میری شادی اپنی مرضی سے کسی کاروباری ڈیل کی طرح کرنا چاہتے ہیں بس" آرون نے اپنے والدین کی سوچ بتائی۔"

آپ ایک بار پھر سے کوشش کریں پلیز۔ آپ بتائیں اُن کو کہ آپ کے لیے میں کتنی اہم ہوں۔" یاسمین نے التجا کی ۔"

میں نے بہت بار بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مان رہے ہیں ۔ ڈیڈ توکافی ناراض بھی ہوگئے ہیں۔ مُجھے اُن سے اِس طرح کےرویے کی بالکُل اُمیدنہیں تھی۔" اُس نے صفائی پیش کی۔"

آپ کو اِس سب کا اندازہ نہیں تھا تو پھر مُجھے کیوں خواب دکھائےتھے آپ نے؟" یاسمین نے اب کی بار تلخ ہوکر پوچھا۔"

"کیونکہ میں آپ کو پسند کرتا ہوں ۔ خیر اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، بہتر ہوگا کہ اب ہم ایک دوسرے سے رابطہ نہ کریں۔ الوداع۔"اُس نے بات ختم  کرکے کال مُنقطع کردی۔ یاسمین ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی۔  اُس کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔کُچھ دیر بعد  یاسمین نے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی تواُس نے کال نہیں اُٹھائی۔  یاسمین نے مُتعدد میسجز کیے مگر اُس نے اُن کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔  یاسمین اپنا دل مارکر بیٹھ گئی۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اکیلے میں بیٹھ کر رورہی تھی۔ ایک پل میں وہ آسمان سے نیچے زمین پر آگری تھی۔  کئی با ر اُسے اپنی زندگی ختم کرنے کا خیال بھی آیا مگر اُس نے خود کو روک لیا۔بہت مُشکل سے وہ خود کو، زارا اور عاشِر کے سامنے نارمل رکھنے کی کوشش کررہی تھی ۔   اگلے پانچ دن تک اُن کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔  وہ اب اُس کے ساتھ کی دُعا کرنا بھی چھوڑچُکی تھی۔

چھٹے دن اچانک آرون کا میسج آگیا۔ وہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ یاسمین نے کُچھ دیر سوچا پھر ہامی بھرلی۔ اُس نے کال  کرکے بات شروع کی:

"سلام یاسمین! کیسی ہیں آپ؟"

کیوں کال کی ہے اب آپ نے؟" یاسمین نے بےرُخی سے سوال کیا۔"

ناراض ہیں آپ مُجھ سے؟" آرون نے بھی سامنے سے پوچھا۔"

نہیں ہونا چاہیئے کیا؟"اُس نے ایک اور سوال کیا۔"

معذرت کرتا ہوں یاسمین! میں خود بہت پریشان تھا ،سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اِس لیے بس بات ختم کردی تھی۔ " اُس نے صفائی پیش کی۔"

اب کیا چاہتے ہیں؟"اُس نے پھر پوچھا۔"

آپ مُجھ پر بھروسہ کریں۔ مُجھے لگتا ہے کہ میں آپ کےبغیر نہیں رہ سکتا ہوں۔ میں پھر بات کروں گا مام ڈیڈ سے۔"  آرون نے پُراُمید ہوکر کہا۔"

پھر سے خواب دکھارہے ہیں، پھر سے توڑنے کے لیے؟" اُس نے اب بھی بےدلی سے کہا۔"

نہیں یاسمین اب کی بار ایسا نہیں ہوگا مُجھے پورا یقین ہے۔" آرون نےمزید کوشش کی۔"

"آپ کے یقین پر یقین کرکے دیکھ چُکی ہوں آرون! اور نتیجہ اب تک بُھگت رہی ہوں۔ اب مزید بیوقوف نہیں بننا ہے مُجھے۔ آپ کے مام ڈیڈ نہیں راضی ہوں گے۔ اُن کو راضی ہونا ہوتا تو پہلے ہی ہوجاتے۔" یاسمین نے دو ٹوک الفاظ میں سچائی بتائی۔

"میں اُن کا اکلوتا بیٹا ہوں یاسمین!میری خوشی سے بڑھ کر اُن کے لیے کُچھ نہیں ہے۔ وہ میری بات ضرور مان جائیں گے۔" وہ اُسے پھر یقین دلانے لگا تو یاسمین کے دل میں واقعی خیال آیا کہ کیا ایسا ہوسکتا تھا؟ یہ مُحبت بھی عجیب شے ہے۔ پچھلے چھ دنوں سے خود سے، دُنیا سے بیزار وہ لڑکی ایک مرتبہ پھر خود کو ہوا میں بُلند ہوتا ہوا محسوس کرنے لگی تھی۔ مگر وہ فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ اُسے کیا جواب دے۔

زندگی میں کبھی کُچھ چیزیں بہت پُراِسرار ہوجاتی ہیں۔ہمیں سمجھ نہیں آتا ہے کہ جو ہم دن رات دُعا میں مانگ رہے ہیں ،وہ ہمارے لیے ہے بھی یا نہیں۔یا جسے ہم دوسرے کا سمجھ کر دُعا میں مانگنا چھوڑچُکے تھے، کیا وہ ہمارا ہی تھا۔وہ بھی اِسی موڑ پر آکھڑی ہوئی تھی۔ اور  پھر اپنے دل کی بات سُن کر اُس نے آرون کو ایک اور موقع دے دیا۔ آرون نے کہا کہ وہ ہفتے کو اپنے  ماں باپ سے بات کرکے اتوار کو خود اُسے گارڈن میں آکر خوشخبری دینے والا تھا۔

 

جاری ہے۔۔۔

This topic was modified 8 months ago 3 times by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?