Share:
Notifications
Clear all

Novel Madd-e-muqabil by Ammar Ahmed Episode 1

1 Posts
1 Users
0 Reactions
149 Views
(@ammarkhi)
Active Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 2
Topic starter  

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

 

 

انتساب
میرے والدین کے نام جنہوں نے مُجھے قُرآن پڑھنے کی ترغیب دی اور
میری تین اُستانیوں (انا،ثناء اور انیلہ باجی) کے نام جنہوں نے مُجھے قُرآن پڑھنا سکھایا
 

 

 

پیش لفظ

اِس ناول میں  کُچھ سادہ سے کردارپیش کیے گئے ہیں جو آپ کی اورمیری طرح ہیں۔ وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں،ڈرتے بھی ہیں،گرتے بھی ہیں اور اُٹھ کر آگے بھی بڑھتے ہیں۔یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اُن کی زندگی میں موجود دیگر اسباب کے ساتھ کس طرح اللہ کا قُرآن اور آپﷺ کی تعلیمات اُن کی مدد کرتی ہیں۔

اِس ناول کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے  اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کروں گا۔ پھر اُن عالم اور عالماؤں کا شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو دین کی تعلیمات کو آسان الفاظ میں آن لائن لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔اُن میں سے کُچھ کےنام لینا چاہوں گا جیسے ڈاکٹر عُمر سلیمان، مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر نعمان علی خان، عمارالشُّکرے،ڈاکٹر فرحت ہاشمی،ڈاکٹر نگہت ہاشمی،میڈم ظلِّ ہُما، تیمیہ زُبیر، سارہ سُلطان، راضیہ حمیدی، نجوہ اود، یاسمین مُجاہداور عفت مقبول۔اِن تمام لوگوں کے لیکچرزسے مُجھے نہ صرف ناول کے حوالے سے مدد ملی بلکہ بہت کُچھ سیکھنے کو بھی ملا۔

اِس کے بعد اسلامک ریسرچرزکا ایک پلیٹ فارم ہے اُن کا اور خاص طور پر وہاں کی کوآرڈینیٹر مِس فروا الطاف کا شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے احادیث کی تصدیق کرنے میں میری مدد کی۔

سب سے آخر میں مُنیبہ نصیر کا شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بی ایس اسلامک لرننگ کے کورسز کے حوالے سے انفارمیشن فراہم کی۔

آپ کا مزید وقت لیے بغیر رُخصت لینا چاہوں گا، اب مُلاقات ہوگی اِن شاء اللہ ناول میں موجود کرداروں کے ساتھ۔فلسطین کے لیے دُعا کرتے رہیے گا۔

السلامُ علیکُم

عمّاراحمد

10 مئی، 2024

 

 

 

 

 

پہلی قسط
(ناول)
مدِّمُقابِل
کراچی کے پوش علاقے میں موجود اِس مشہور اسکول کی بلڈنگ کے باہر بڑی بڑی گاڑیاں وقفے وقفے سے آکر رُک رہی تھیں۔ گاڑیوں میں یا تو والدین خود اپنے بچّوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے آرہے تھے یا اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھیج رہے تھے جو بچّوں کو اِسکول کے گیٹ کے باہر چھوڑکر روانہ ہوجاتے تھے۔ وہیں ایک اور عالی شان گاڑی آکررُکی اور اُس میں سے ایک صاحب جن کا نام طارق سُلطان تھا، اپنی پیاری سی بیٹی، حِبا سُلطان کے ساتھ اُترگئے۔ گاڑی سے اُترکر اُنہوں نے ڈرائیور کو اِشارہ کیا  تو ڈرائیور گاڑی کو گھُماکر واپسی کے لیے ریورس کرنے لگا۔اُن کے چہرے پر موجود کم گھنی، مگر لمبی داڑھی سے اندازہ ہوتا تھا کہ اُن  کی عُمر پینتیس سے چالیس سال کے درمیان تھی۔ بیٹی کی عُمر بھی آٹھ سے نو سال کے قریب لگ رہی تھی۔ بچّی اپنا بستہ اپنے کندھے پرلٹکانے لگی تو اُس کےوالد نے پیار سے وہ بستہ لیکر اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑلیا پھر اپنا دایاں ہاتھ بچّی کی طرف بڑھایا جسے اُس نے  مُسکراکر تھام لیا اور پھر وہ اسکول کے گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔

گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک سیدھا لمبا میدان تھا جس کے دوسرے سرے پر اسکول کی کلاسز تھیں۔ میدان میں بچّوں کی صبح کی اسمبلی اور دیگر مشقیں ہوتی تھیں۔ بچّی اپنے والد کے ساتھ میدان سے گُزررہی تھی۔ اُن کےآگے کُچھ فاصلے سے ایک اور بچّی اکیلی بھاگتی ہوئی جارہی  تھی تب ہی اچانک اُس آگے بھاگنے والی بچّی کو کسی پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ گِرگئی۔ اُسے گرتا دیکھ کر پیچھے آرہے شخص اور اُن کی بیٹی بھی پریشان ہوکررُک گئے۔گرنے والی بچی نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر اُس سے اُٹھا نہیں گیا۔

"ابو وہ گرگئی ہے میں اُس کی ہیلپ کرکے اُسے اُٹھادوں؟" بچّی  نے والد کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

اُس کے والد  نے مُسکراکر اثبات میں سر ہلایا اور بچی کا ہاتھ چھوڑدیا۔ بچی بھی مُسکراکر مُڑی اور تیزی سے سامنے کی طرف دوڑنے لگی۔

" بیٹا ذرا سنبھال کر۔" والد نے پیچھے سے ہدایت دی۔ بچّی تیزی سے بھاگتی  ہوئی آگے زمین پر بیٹھی ہوئی بچی کے پاس پہنچ گئی اور اُسے ہاتھ دے کر اُٹھنے میں مدد کرنے لگی۔ اِتنی دیرمیں اُس کے والدبھی تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ اُنہوں نے دیکھا   کہ گرنے کی وجہ سے بچی کے گھُٹنے پر چوٹ لگ گئی تھی۔ پھر وہ دونوں بچّیوں کو لیکر پرنسپل روم میں گئے اور وہاں اُس زخمی ہونے والی بچی کے متعلق اِطلاع دی تاکہ اُس کے گھر سے کسی کو بُلاکر حفاظتی انجیکشن لگوالیا جائے۔ اُس بچی کو وہیں ٹیچرز کے حوالے کرکے وہ اپنی بیٹی کو لیکر اُس کی کلاس کی طرف روانہ ہوگئے۔

"ابو اُس بیچاری کے اِتنی چوٹ لگ گئی۔" بچّی نے چلتے چلتے کہا۔

"جی بیٹا مگر وہ انجیکشن لگوائے گی تو اللہ میاں اُسے جلدی سے ٹھیک کردیں گےاور آپ نے بہت اچھا کیا جو اُس کی ہیلپ کی۔" اُس کے والد نے اُسے تسلی دے کر اُس کی تعریف بھی کی۔

"جی آپ نے بتایا تھا ناں کہ ہمیں سب کی ہیلپ کرنی چاہیئے۔" بچّی  نے والد کا دیا ہوا سبق دُہرایا۔

"بالکُل میری پیاری گُڑیا جب بھی آپ کے سامنے ایسے کوئی گرجائے اور پرابلم میں ہو تو کبھی اُس کو وہاں چھوڑکر مت جانا۔ ہمیشہ  اُس کی ہیلپ کرنا اور اُس کو اُٹھانا ۔ اللہ میاں اِس سے بہت خوش ہوتے ہیں۔" والد نے بچّی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے جواب دیا۔

"اچھا ابّو ہم پارٹی کی تیاری کب کریں گے؟" اُس نے اپنی کلاس کے نزدیک پہنچ کر والد سےاُسی رات ہونے والی اپنی سالگرہ کی پارٹی کے حوالے سے سوال کیا۔

"بیٹا آپ اسکول سے واپس آئیں گی بس پھر تیاری شروع کریں گے۔" والد نے بچّی کے گال پر بوسہ دیکر کہا  اور اُسے کلاس روم کے باہر چھوڑکر واپس چل دیے۔ بچی بھی کلاس میں داخل ہوکراپنی دوستوں کے ساتھ مصروف ہوگئی۔

 

 

 

اِس عالیشان اِسکول سے کافی دور صدر کے قریب ایمپریس مارکیٹ کے پاس ایک خستہ حال عمارت کی پہلی منزل پر آئیں تو سیڑھیاں ختم ہونے پر دائیں اور بائیں دونوں جانِب فلیٹ بنے ہوئے تھے۔ بائیں ہاتھ کے فلیٹ میں داخل ہوں تو ایک پتلی گلی سی بنی ہوئی تھی جس میں تھوڑا آگے جائیں تو دائیں ہاتھ کی طرف ایک دروازہ تھا ۔ دروازے سے اندر داخل ہوں تو ایک چھوٹا سا کمرہ تھاجہاں اِتنی جگہ تھی کہ بمُشکل تین سے چار افراد وہاں لیٹ سکتے تھے۔ اُس پتلی گلی سے کچھ قدم آگے چل کرایک کھُلا لاؤنج بنا ہوا تھا جہاں ایک کونے میں چھوٹا سا کچن تھا ۔ کِچن کی مُخالف سِمت میں باتھروم بنا ہوا تھا۔ باقی ماندہ جگہ پر ایک چھوٹی سی میز اور اسکے ساتھ دو چھوٹی اِسٹول کے سائز کی  کُرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اُس وقت کِچن میں  ایک خاتون تیزی سے ناشتہ تیار کرتی نظر آرہی تھیں۔ لاؤنج  میں جگہ جگہ دیواروں پر آویزاں تصاویر اور صُلیب کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ ایک عیسائی فیملی تھی۔ دوکمروں پر مُشتمل اِس فلیٹ میں زارا، اُس کا شوہر اکبر، بیٹی یاسمین اور بیٹا عاشِر  رہتے تھے۔

اکبر پیشے سے ایک مزدور تھا اور کئی سالوں سے مزدوری کرنے کے بعد اب مزدوروں کو سُپروائز کیا کرتا تھا۔ ویسے تو وہ ایک سُپروائزر تھا لیکن نوکری اُس کی پکّی نہیں تھی لہٰذا جب کہیں کسی عمارت میں کنسٹرکشن کا کام آتا تھا ،تب ہی اُس کو بُلایا جاتا تھا ورنہ وہ بے کار اپنے بیٹے کو لیکر اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا تھا۔ گھر میں مُستقل آمدنی زارا کی تھی اور اِخراجات  کا زیادہ تر بار وہی اُٹھاتی تھی۔ وہ سِلائی کڑھائی بہت اچھی کرلیا کرتی تھی جس کی وجہ سے اِتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گھر کا خرچہ پورا ہوجاتا تھا۔

"ماما مُجھے آج پھر اِسکول پہنچنے میں دیر ہوجائے گی۔" اُس چھوٹے سے لاؤنج میں رکھی گول میز کے گرد،اسٹول نُما کُرسی پر بیٹھی گُھنگھریالے بالوں والی آٹھ سالہ بچّی نے آواز لگائی۔

"تُمہارے پاپا رات پھر دیر سے آئے تھے اُن کو اُٹھ کر کھانا دیا  ، پھر مُجھے نیند دیر سے آئی اِس لیے صبح آنکھ نہیں کھُلی۔ بس ایک منٹ رکویہ ہوگیا آملیٹ ریڈی۔" ماں نے وضاحت دی۔

"کوئی بات نہیں ماما، تھوڑی دیر ہوجائے گی تو بھی کوئی پرابلم نہیں ہے۔" بچّی نے ماں کو تسلی دی۔

"اچھا پاپا کی لاڈلی!ابھی تو دیر ہورہی تھی تم کو اور پاپا کا نام سُن کر کوئی بات نہیں-" ماں نے آملیٹ اور پراٹھا بچّی کو دیتے ہوئے کہا۔

"پاپا ہمارے لیے ہی تو ورک کرتے ہیں ماما لیٹ نائٹ تک۔" بچّی نے باپ کی طرفداری کی۔ وہ ہمیشہ سے اپنے باپ سے زیادہ قریب رہی تھی۔

"بالکُل ٹھیک بولا تم نے ، تمہارے پاپا ہم سب کے لیے بہت ہارڈ ورک کرتے ہیں۔" ماں نے مُسکراکر کہا۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ بچّی جس کا نام یاسمین تھا، ناشتہ ختم کرکے جلدی جلدی اسکول کے لیے روانہ ہوگئی ۔ وہ پاس ہی کے ایک اسکول میں تیسری جماعت میں  زیرِتعلیم تھی۔ اُس کا بھائی عاشِر اُس سے چار سال چھوٹا تھا اور ابھی نرسری میں تھا۔اُس کی ماں زارا،اُسے بلڈنگ کی سیڑھیوں تک چھوڑکر واپس فلیٹ کی طرف مُڑگئی تھی۔ زارا کو پیسوں کے حوالے سے اکثر اپنے شوہر اکبر سے شکایت رہتی تھی مگر وہ کبھی اپنی اور اکبر کی نوک جھونک کو بچّوں کے سامنے نہیں لاتی تھی۔ خاص طور پر یاسمین تو شروع سے ہی اپنے باپ کی لاڈلی رہی تھی یا شاید ساری بیٹیاں ہی باپ کو زیادہ پیاری ہوتی تھیں۔ خیر وہ اپنے بچّوں کو اُن کے باپ سے کبھی مُتنفِّر کرنےکا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اُس نے اکبر سے مُحبت کی شادی کی تھی اور اُس کے چھوٹے سے خاندان کا تھوڑی تنگی تھوڑی آسانی میں گُزارہ ہو ہی جاتا تھا۔

دس بجے کے قریب اکبر اُس کے ساتھ چھوٹی سی ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کررہا تھا۔ اُن کا بیٹا ابھی بھی سورہا  تھا۔ وہ رات باپ کے ساتھ دیر سے گھر آیا تھا۔

"تم کو رات میں دیر سے آنا ہوتا ہے تو عاشِر کومت لے کر جایا کرو ناں۔ اب آج بھی یہ اسکول نہیں گیا ابھی تک پڑا سورہا ہے۔" زارا نے شکایت کی۔

"ارےبھئی مُجھے تھوڑی پتہ تھا کہ دیری ہوجائے گی۔ اصل میں ایک بڑا کام ملا ہے کل۔ بس اُسی چکّر میں رات ہوگئی۔" اکبر نے وضاحت دی۔

"ہاں سمجھتی ہوں تمہارا بڑا کام۔ بس کُچھ دن کی نوکری ہوگی، کوئی مُستقل انتظام تو نہیں ہوگا ناں۔" اُس نے شوہر سے ایک اور شِکوہ کردیا۔

"فی الحال تو ایک لمبا پراجیکٹ ہے۔ تین چار مہینے کا کام ہے اِس میں اور یہ ایک نئے کانٹریکٹر ہیں، کافی مذہبی ہیں۔ دیکھو اگر یہ کام اچھا رہا تو آگے چل کر ہوسکتا ہے پکّی نوکری دے دیں۔" اکبر نے اپنے نئے کام اور باس کا تعارُف کروایا۔

"مذہبی لوگوں سے ذرا دور ہی رہنا اکبر۔ یہ لوگ ہمیں کیا سمجھتے ہیں تم کو اچھی طرح پتہ ہے۔ ایک مذہب ہی تو رہ گیا ہے یہاں ،باقی سب کُچھ اِن مسلم لوگوں جیسا ہی ہوگیا ہےہمارا۔ تُم تو اب بات بھی اِن لوگوں کی طرح ہی کرتے ہو۔" زارا نے شوہر کوتنبیہ کی۔

 آمدنی کی بات کے علاوہ یہ ایک اور بات تھی جسے لے کر اُس کی اکبر کے ساتھ بحث ہوجاتی تھی کہ اکبر کی مسلم کمیونٹی کے لوگوں سے دوستی تھی۔ زارا دین کے مُعاملے میں کوئی لچک نہیں رکھتی تھی۔ اُسے ڈر رہتا تھا کہ اُس کے بچّے کہیں بھٹک نہ جائیں۔  اُس نے ہمیشہ سے یہ بھی دیکھا تھا کہ اِس مُلک میں اُس کی کمیونٹی کے لوگوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ روزگار کے معاملے میں بھی اُن کے ساتھ اِس قدر تعصُّب ہوتا تھا کہ مردوں کے لیے محض کوڑا کرکٹ صاف کرنے والے خاکروب یا بھنگی کی نوکری رکھی جاتی تھی اور خواتین کو بس ہسپتال کی نرس کے طور پررکھا جاتا تھا اِس سے اوپر کبھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اور اس سب کے باوجود  یہ مُسلمان لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ  سب انسان خدا نے پیدا کیے ہیں اور سب برابر ہیں مگر عملی طور پر اِس کا مُظاہرہ کوئی نہیں کرتا تھا۔

"تُم ایسے ہی ڈرتی رہتی ہو زارا! ہمیں یہیں رہنا ہے تو مِل جُل کر رہنا چاہیئے، پھر یہ نوکری وغیرہ بھی تو یہی لوگ دیتے ہیں۔" اکبر نے اُسے سمجھایا۔

"نوکری تُمہاری محنت، قابلیت اور یسوع مسیح کی مہربانی سے ملتی ہے تُمہیں، اِن لوگوں کا کوئی کمال نہیں ہے۔" زارا نے فوراً جواب دیا۔ وہ اُن لوگوں کو ذرا سا بھی کریڈٹ نہیں دینا چاہتی تھی۔

"بس رہنے دو، یسوع مسیح نے ہی دلائی ہے نوکری تو پھر کوئی پکّی نوکری دلادیتے ناں۔" اکبر نے بیزاری سے جواب دیا۔

"اکبر تُم کیسی بات کرتے ہو، معافی مانگو خداوندسے اپنے الفاظ کی۔" زارا نے اُس کو ڈرایا ۔

"اچھا بابا اب نہیں بولوں گا ایسا، خداوند مُجھے معاف کریں۔" اکبر کان پکڑکر چھت کی طرف دیکھ کر کہتا ہوا باہرچلاگیا۔

زارا کے مُقابلے میں وہ دین سے کافی اُکتایا رہتا تھا۔ زارا ہر اتوار کو چرچ جاتی تھی۔ ابتدا میں وہ بھی اُس کے ساتھ پابندی سے جایا کرتا تھا پھر رفتہ رفتہ اُس نے آئے دن کی بیروزگاری کی وجہ سے پابندی سے جانا چھوڑدیا تھا۔ کبھی نہ چاہتے ہوئے جاتا بھی تھاتو تھوڑی ہی دیر میں اُٹھ جاتا تھا یا دیر سے ہی جایا کرتا تھا۔ بچّوں کی پیدائش کے بعد زارا نے بھی چرچ جانا کُچھ عرصے تک کم کردیا تھا لیکن اب جب بچّے اسکول جانے لگے تھے، تو وہ پھر سےپابندی سے بچّوں کو لے کرچرچ جایا کرتی تھی۔ کبھی کبھار اکبر بھی تھوڑی دیر کے لیے ساتھ چلاجاتا تھا۔

 

 

 

اکبر کو کام دینے والے مشہور کانٹریکٹر محمود سُلطان کے بیٹے طارق سُلطان تھے۔ یوں تو پِچھلے آٹھ دس سال سے وہ اپنےوالد کے کاروبار میں اٰن کا ہاتھ بٹارہے تھے مگر پچھلے سال اپنے والد کےاِنتقال کے بعد اب اُنہوں نے مُکمل طور پر کاروبار کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ اپنی اِکلوتی بہن کو اُنہوں نے والد کی وصیّت کے مُطابق جائداد میں سے حصہ بھی دے دیا تھا اور کاروبار میں بھی والد کی ہدایت کے مُطابق چالیس فیصد شیئرز اپنی بہن  کے نام کردیے تھے۔ محمود سُلطان کا تمام کاروبار اندرونِ سندھ ہی ہوا کرتا تھا لیکن اب طارق سُلطان نےکاروبار کو بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا اوراِسی لیے کراچی میں ایک فارم ہاؤس کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرا تھا۔

ڈیفنس فیز 6 کے مُتموِّل علاقے میں اِس وقت رات کے آٹھ بجے کے قریب کا وقت تھا۔ یہاں موجود مُتعدِدبنگلوں میں سے ہزار گز کی اراضی پر بنا ایک  بنگلہ طارق سُلطان کا تھا۔ بنگلے کے باہر ایک بڑی تختی "سُلطان وِلا" اور اُس کے نیچے ایک چھوٹی تختی محمود سُلطان کے نام کی  لگی ہوئی تھی۔ آج طارق سُلطان  کی اکلوتی بیٹی،حِبا سُلطان کی نویں سالگرہ تھی اور اِس سلسلے میں ایک چھوٹی سی دعوت کا احتمام کیاگیا تھا۔ بنگلے کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوں تو ایک سیدھا پکا راستہ گیراج کی طرف جارہا تھا۔ اُس پکّے راستے کے دائیں طرف ایک وسیع باغ بنا ہوا تھا جو مُختلف پھولوں کے پودوں سے سجا ہوا تھا۔ رات کے اِس پہر پورا باغ رات کی رانی کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ باغ میں طارق سُلطان مہمان مرد حضرات کی خاطر تواضُع میں مصروف تھے۔ باغ سے مُتّصِل گھر کی عمارت کے دروازے سے باہر آنے والا ایک مُلازم تیز قدموں سے چلتا ہوا طارق سُلطان کی طرف آیا اور دھیمی آواز میں اُن سے کُچھ کہا جسے سُن کر وہ مہمانوں کو کھانے پینے کی ہدایت کرکے اُن سے کُچھ دیر کی رُخصت لے کر مُلازم کے ساتھ گھر کے اندرونی حصے کی طرف چل پڑے۔

گھر کے اندرونی حصّے میں داخل ہوتے ہی ایک خاصا بڑا لاؤنج تھا ،جس کے اختتام پر سامنے ایک دروازہ کِچن کی طرف جاتا تھا جبکہ بائیں طرف موجود دروازہ ایک کمرے کا تھا۔  کِچن کے ساتھ ہی اوپری منزل پر جانے کے لیے سانپ کی طرز پر گول گھومتی ہوئی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ لاؤنج کے آغاز میں ہی دائیں طرف ایک  دروازہ مہمانوں کے کمرے کا تھا۔ طارق سُلطان نے اُس دروازے پر دستک دی تو  اُن کی بیگم طیّبہ سُلطان نے  دروازہ کھول کر اُنہیں دیکھا اور پھر مُسکراتے ہوئے اندر آنے کا کہا۔

"اپنے گھر میں داخلے کے لیے بھی خاتون سے اجازت لینی پڑتی ہے ہمیں۔" اُنہوں نے مُسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اپنی بیگم سے شکایت کی۔

"یہاں اندر خواتین ہیں طارق صاحب! خیال رکھنا پڑتا ہے۔" طیبہ سُلطان نے جواب دیا۔

"پھر فرمایئے سرکار ہمیں کیسے یاد کیا؟" طارق سُلطان نے شرارت سے پوچھا تو طیبہ سُلطان کے گال شرم سے سُرخ ہوگئے۔

"حد کرتے ہیں آپ دس سال ہوگئے ہیں شادی کو مگر آپ نہیں بدلے۔ میں نے نہیں آپ کی صاحبزادی نے یا د کیا ہے آپ کو۔ کہتی ہیں ابو کے بغیر کیک نہیں کاٹیں گی۔ کافی سمجھایا میں نے کہ ابو یہاں نہیں آسکتے سب آنٹیاں ہیں یہاں،ابو باہر انکلز کے ساتھ ہیں مگر آپ کی بیٹی نہیں مان کے دی۔ ٹھیک ٹھاک بِگاڑدیا ہے آپ نے اِسے پتہ نہیں یہ کیسے سُدھرے گی۔" اُنہوں نے اِطلاع دینے کے ساتھ بیٹی کی شِکایت بھی کی۔

"بھئی آپ ہماری گُڑیا کو کُچھ مت کہا کریں ، ابھی  اُس کی اور اُس کے والد کی سُدھرنے کی نہیں بِگڑنے کی عُمر ہے ۔" اُنہوں نے بدستور مُسکراتے ہوئے کہا تو طیبہ سُلطان استغفِرُاللہ کہہ کر اُن کو لے کر اندر کمرے کی طرف چل پڑیں۔

طیبہ سُلطان کا تعلُق مذہبی گھرانے سے تھا۔ اُن کے والد قاسم صدّیقی قریب تیس سال سے تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ تھے۔ طارق سُلطان کے والد، محمود سُلطان کے ساتھ اُن کی دوستی تھی اور پھر اِس دوستی کو اُنہوں نے رشتہ داری میں بدل دیا۔ طیبہ سُلطان بھی والد کی سرپرستی میں دین سے ہمیشہ قریب رہی تھیں اس لیے کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شرعی پردہ بھی شروع کردیا تھا۔ جب وہ بیاہ کر طارق سُلطان کے گھر آئی تھیں اُس وقت وہ کاروبار میں اپنے والد کے ساتھ ابتدائی جدوجہد کے دور سے گُزررہے تھے، دین کی طرف بھی رُجحان بس نماز، روزے کی حد تک ہی تھا لیکن طیبہ سُلطان کی آمد کے بعد اللہ نے اُن کے کاروبار میں وُسعت فرمادی تھی اور پھر اپنی بیوی کی دیکھا دیکھی وہ بھی اب بہت حد تک دین کے قریب آگئے تھے حتٰی کہ اپنے سُسر کے ساتھ اکثر تبلیغی اجتماعات میں بھی شِرکت کرتے رہتے تھے۔

کمرے میں موجود اکثر خواتین نے نقاب کرلیا تھا۔ طارق سُلطان نے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر کیک کاٹا اور مُلازمین کو کھانا لگانے کی ہدایت دے کرجلد ہی باہر مردوں کی طرف واپس آگئے۔ کھانا کھانے کے کُچھ ہی دیر بعد ایک ایک کرکے تمام مہمان اپنے اپنے گھر روانہ ہوگئے تھے اور یوں اِس دعوت کا اختتام ہوگیا۔

 

 

 

نو سال بعد

اِن نو سالوں میں زندگی اپنی ڈگر پر رواں رہی تھی۔کُچھ حالات و واقعات نے اپنا اثر ضرور چھوڑا تھا مگر زندگی بہرحال چل رہی تھی۔ اِنٹر میڈیٹ کے امتحانات کا آج آخری پرچہ تھا۔ ایک مشہور کالج کے کمرہ امتحان میں اِس وقت تمام طالبات اپنے اپنے پرچوں کے ساتھ مصروف تھیں۔ وقت ختم ہونے میں ابھی بیس منٹ مزید  باقی تھے۔ اختتامی وقت قریب آنے کی وجہ سے جہاں سب لڑکیاں تیزی سے لکھنے میں مصروف تھیں، وہیں کلاس کی تیسری قطار میں بائیں طرف والی  نِشست پر بیٹھی  لڑکی ہاتھ میں پین پکڑے اپنی کاپی کے صفحات کا جائزہ لے رہی تھی۔ تھوڑے صحت مند جسم کی مالک اُس لڑکی نے بالوں کودرمیاں میں کیچر لگاکر بند کیا ہوا تھا اور سر پر دوپٹّہ بھی لیا ہوا تھا جسے بالوں کے ساتھ ہی ایک کلپ لگاکر جوڑا ہوا تھا۔ ہر صفحہ پلٹنے کے بعد وہ اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ایک نظر اپنے بائیں جانِب سیدھ میں سب سے آخر میں بیٹھی طالبہ پر ڈالتی تھی اورپھر اپنی کاپی کے اگلے صفحے کا جائزہ لینے لگتی تھی۔ اُس کی کاپی کے آخری دو صفحات پلٹنا رہ گئے تھے جب اُس نے  ایک بار پھر اپنے بائیں طرف والی طالبہ کو دیکھا تو اُسے محسوس ہوا کہ جیسے  وہ طالبہ اپنی نِشست سے اُٹھنے والی ہے۔ یہ دیکھ کر اُس نے  جھٹ سے اپنی کاپی بند کی، پین اور دوسرا سامان باکس میں ڈالنے لگی اور پھر بستہ تیار  کرکے جب اس بار بائیں طرف سر گُھماکر دیکھا تو اُس کی مطلوبہ طالبہ اپنی نِشست سے کھڑی ہوکر اپنا یونیفارم دُرست کررہی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ تیزی سے اُٹھی اور بھاگنے کے انداز میں تیز تیز قدم اُٹھاتی جلدی سے جاکر نِگراں امتحان کو اپنی کاپی تھماکر کمرے سے باہر نکل گئی۔ اُس کو اِس طرح جلدبازی میں جاتا دیکھ کر اُس کی پچھلی نِشست پر بیٹھی طالبہ نے مُسکراکر اپنا سر دائیں بائیں ہِلایا اور پھر اپنے پرچے کی طرف مُتوجہ ہوگئی۔

"حِبا!" اپنا نام سُن کر لان میں ایک بینچ پر بیٹھی اُس  لڑکی نے آواز کی سِمت دیکھا اور ایک مُسکراہٹ کے ساتھ اُٹھ کر سامنے کلاس سے باہر آنے والی لڑکی کی طرف چل پڑی۔

"کیسا رہا پیپر؟" حِبا نے اُس لڑکی کے پاس پہنچ کر سوال کیا۔

"بس بہن ہوگیا جان چُھوٹی۔" وہ لڑکی جس کا نام فریحہ تھا اور حِبا کی بہترین دوست تھی،اُس نے جواب دیا۔ حِبا کے مُقابلے میں تھوڑی اسمارٹ ہونے کے سبب وہ زیادہ پُرکشش   دکھائی دیتی تھی۔اُس کے بال حِبا کے مُقابلے میں کُچھ کم لمبے تھے جنہیں اُس نے کُھلا چھوڑا ہوا تھا البتہ بہت سلیقے سے دوپٹّہ سر پر موجود تھا جو تمام بالوں کو چُھپارہا تھا۔

"تُو نہیں پوچھے گی میرا پیپر کیسا گیا؟" حِبا نے اُس کے ساتھ کالج کے باہر جانے والے  راستے کی طرف مُڑتے ہوئے پوچھا۔ اب وہ دونوں دوسری لڑکیوں کے ساتھ لمبی راہداری سے گُزررہی تھیں۔

"تُو اندر جو حرکت کرکے آئی تھی، وہ دیکھی تھی میں نے۔" فریحہ نے اُسے کچھ دیر پہلے والی حرکت یاد دلائی۔

"ہاں تو وہ عنبر ہر پیپر میں جہالت دِکھاکر سب سے پہلے باہر جارہی تھی جیسے کوئی بڑی پوزیشن ہولڈر ہو، بس آج آخری پیپر تھا تو پہلے میں باہر آگئی۔" اُس نے وضاحت دی۔

"یہ ویسے کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی کہ تُو اُس سے مُقابلہ شروع کردے، خیر اب تو امتحان ختم ہوگئے شُکر ہے بھئی۔" فریحہ نے اُسے سمجھایا۔

"اچھا اب کیا پلان ہے؟" حِبا نے پوچھا۔ وہ لوگ اب کالج کے مرکزی دروازے کے قریب تھے۔

"میرا پلان ہے کہ میں ایک بہت لمممبی نیند لے کر سوؤں گی۔" فریحہ نے م کو طُول دے کر کہا۔

"ایسے کونسے کوئی بہت پہاڑ توڑلیے ہیں تُو نے جو لمممبی نیند چاہیئے تھکن اُتارنے کے لیے؟" حِبا نے اُس کی نقل اُتارتے ہوئے پوچھا۔

"دیکھو یہ جو تُم پڑھاکو لوگ ہوتے ہو ناں تم ہماری حالت نہیں سمجھتے۔ تُم لوگ مزے سے لے آتے ہو اسّی پِچّاسی فیصد اور ہمارے اماں ابا بیچارے ہوجاتے ہیں احساسِ کمتری کا شکار اور پھر وہ ہم پر بھی دباؤ ڈالتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح پڑھیں۔ اب اُن کو کون سمجھائے کہ ہر انسان کا الگ ٹیلنٹ ہوتا ہے اور فریحہ سعید، یہ رٹّے لگانے کے لیے پیدا نہیں ہوئی ہے۔  پھر بھی بہت محنت کی ہے میں نے، رات کو جاگ جاگ کر نیٹ فلکس پر سیریز دیکھتےدیکھتے پڑھائی بھی کی ہے۔ اب آرام تو بنتا ہے ناں۔" فریحہ نے تقریر ختم کی تو حِبا، جو مُنہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش کررہی تھی وہ پوری طرح ہنسنے لگی۔

اب وہ لوگ گاڑی کے پاس پہنچ گئے تھے۔ فریحہ سعید،حِبا سُلطان کے والد طارق  سُلطان کے بزنس پارٹنر قیصر سعید کی بیٹی تھی۔ وہ اسکول کے زمانے سے حِبا کے ساتھ تھی۔ حِبا کے والد نے گاڑی بھیجی تھی جس میں اب وہ دونوں بیٹھ چُکی تھیں۔ ڈرائیور کے سامنے وہ دونوں بات نہیں کرتی تھیں۔ راستے میں ایک اسٹور کے پاس رُک کر ڈرائیور گھر کے لیے کُچھ سامان لینے گیا تو وہ دونوں پھر شروع ہوگئیں۔

"یار میں نے سوچا تھا کہ پیپر کے بعد ہم کُچھ پلان کریں گے۔" حِبا نے وہیں سے بات شروع کی جہاں کچھ دیر پہلے ختم کی تھی۔

"اِس "ہم" میں سے مُجھے مائنس کردیں آپ۔ میں اگلے چھ مہینے کے لیے آپ سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہوں۔ بی ایس اِسلامک لرننگ کے ایڈمیشن چھ مہینے بعد ہیں ،تو اب چھ مہینے بعد ہی آپ کو مزید میری کمپنی نصیب ہوگی اِن شاء اللہ ۔" فریحہ نے سادگی سے کہا۔

"ویسے ایک بات ہے بہت ہی کوئی ہائی لیول کی بےشرم اور خودغرض ترین عورت ہے تُو۔" حِباکواُس کی بات پر غصّہ آگیا۔

"میں اِس کو کامپلیمنٹ(تعریف) کے طور پر لیتی ہوں۔" فریحہ نے مزید ڈھٹائی سے کہا۔

"یار فریحہ! مسئلہ یہ ہے کہ اگر اِس "ہم" میں سے تُجھے مائنس کردوں گی تو باقی میں اکیلی بچوں گی اور مُجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا اگلے چھ مہینے تک تُو بس سوتی رہے گی؟" حِبا نے حیرت سے پوچھا۔

"بالکُل۔" فریحہ نے جواب دیا۔

"میں نے سُنا تھا کہ کچھوا کئی سو سال تک سوتا رہتا ہے، اُس کے بعد تُو دوسری جانور ہوگی جو اِتنا لمبا سوئے گی۔" حِبا نے غُصےسے کہا اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔

"نہیں میں نے موویز بھی دیکھنی ہیں اور بھی کام ہوں  گے مگر ٹینشن نہیں ہوگی بس۔ ویسے تیرا کیا پلان ہے؟" فریحہ نے اُس سے پوچھا۔

"فی الحال پریکٹیکلزہیں، اُس کے بعد  ابو نے چھُٹی پر لے کر جانے کا کہاتھا تو وہیں جانا ہوگا اور وہاں سے واپس آکر پھر امی ابو کو راضی کرناہے تیرے ساتھ ایڈمیشن لینے کے لیے۔ بس امی چاہتی ہیں کہ میں اِس فیلڈمیں نہ آؤں اور وجہ تُجھے معلوم ہے۔" حِبا نے اُسے اپنے  منصوبے کے مُتعلق بتایا۔

"مطلب تُم نےاور انکل نے مل کر آنٹی کو راضی کرناہوگاناں۔" فریحہ نے ہنس کر کہا۔ وہ جانتی تھی کہ طارق سُلطان اپنی بیٹی کی بات کبھی نہیں ٹالتے ۔

"ہاں یار ایسا ہی ہے اور اِس کے لیے مُجھے تیری مدد کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔ کردے گی ناں ہیلپ؟" حِبا نے اُس سے پوچھا۔

"فکرمت کر یار

 I’ll never let go, Jack. I’ll never let go. I promise۔"فریحہ نے کسی انگریزی فلم کا ڈائیلاگ بول کراُس کو تسلی دی۔ حِباسے بات کرتے ہوئے وہ اکثر فلموں کے مکالمے، مشہور اقوال،   اشعار اور گانوں کے بول کا استعمال کرتی رہتی تھی۔اُسے فلمیں دیکھنے اور ناولز پڑھنے کا شوق تھا جبکہ حِبا دینی کتابیں پڑھنے کے علاوہ آن لائن اسلامی لیکچرز سُننا پسند کرتی تھی۔

"اب یہ کس فلم کا ڈائیلاگ مارا ہے توُنے؟" حِبا نے اُس سے پوچھا۔

"یہ مشہور فلم ٹائی ٹینک کا ڈائیلاگ ہے جوفلم کی ہیروئن، ہیرو کا ہاتھ تھام کر اُس سے کہتی ہے جب جہاز ڈوب چُکا ہوتا ہے اور وہ دونوں ایک لکڑی کے تختے کے سہارے کسی امداد کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔"فریحہ نے تفصیل بتائی۔

"تو پھر وہ اُس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتی؟" حِبا نے اِس مرتبہ کافی دلچسپی سے پوچھا۔

"بالکُل زبان کی پکی ہوتی ہے وہ میری طرح۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ تختے کے اوپر  بیٹھی ہوتی ہے جبکہ ہیرو آدھا برف کے پانی میں ہوتا ہے اور پھر جب  امدادی کشتی آتی ہے، تب تک وہ سردی سے ٹھٹھر کر مرجاتا ہے تو وہ بیچاری اُس کا ہاتھ چھوڑکر، اُس کی لاش پانی میں پھینک دیتی ہے اورخود  امدادی کشتی کےساتھ جان بچاکر چلی جاتی ہے۔" فریحہ نے معصومیت سے جُملہ مُکمل کیا تو حِبا کی آنکھیں پہلے حیرت سے پھیل گئیں اور پھر اُسے ہنسی آگئی۔ اُس نے فریحہ کے ہاتھ پرتالی مارکر کہا۔

"واقعی تیرے جیسی تھی بھئی یہ تو۔ توُ نے بھی یہی کرنا ہے میرے ساتھ۔" ابھی وہ ہنس رہی تھیں کہ ڈرائیور سامان لے کر آگیا اور وہ لوگ خاموش ہوکر اپنی منزِل کی طرف چل پڑے۔

 

 

 

وہ سندھ مدرستہ لاسلام کے سامنے سے گُزرتی ہوئی اپنے فلیٹ کی بِلڈنگ کی طرف جارہی تھی۔ اُس کے ساتھ کالج کی دوسری لڑکیاں بھی وہاں سے گُزررہی تھیں مگر اپنے گُھنگھریالے بالوں کی وجہ سے وہ سب سے الگ نظر آتی تھی۔ اُس نے بالوں میں دائیں بائیں دو چوٹیاں باندھی ہوئی تھیں جبکہ درمیان سے بال ویسے ہی کُھلے چھوڑدیے تھے۔ سر پر دوپٹّہ لیا ہوا تھا مگر اُس کے با ل کافی لمبے ہونے کی وجہ سے  دونوں چوٹیاں دوپٹّے سے باہر آرہی تھیں۔ دوپہر میں گرمی کی وجہ سے  اِس وقت وہاں آس پاس رش کم تھا۔ وہیں دُکانوں پر نظر ڈالتے ہوئے اُس کی نگاہ پھولوں کی دُکان پر گئی تو ایک لمحے کے لیے سوچا کہ پھول خرید لے مگر پھر گھر کے ماحول کا خیال آتے ہی یہ بات اُس نے ذہن سے جھٹک دی۔ اُسے بچپن سے پھول بہت پسند تھے۔ وہ اکثر اسکول سے واپسی پر گلاب، چنبیلی یا کوئی اور پھول لیتی ہوئی گھر جایا کرتی تھی۔ پھول کبھی ماں یا بھائی کو دے دیا کرتی تھی اورکبھی اپنے کمرے میں ٹیبل پر رکھ لیتی تھی۔ مگر اب گھر میں جیسے مُسلسل خزاں کا موسم آگیا تھا اور اِس لیے اُس نے بھی کافی عرصے سے پھول خریدنا چھوڑدیے تھے۔  اِس کے علاوہ فٹنس کا بھی اُسے بہت شوق تھا جس کی وجہ سے وہ کافی دُبلی نظر آتی تھی۔ آج اُس کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ختم ہوگئے تھے۔ اُسے خوش ہونا چاہیئے تھا مگر وہ پریشان تھی۔ اُس کی مصروفیت ختم ہوگئی تھی اور اب آگے کی پڑھائی اگر ہوتی بھی  تو اُس سے پہلے جو وقفہ تھا وہ وقت اُسے گھر پر ہی گُزارنا تھا۔  اِنہی سوچوں کے ساتھ اُس نے بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھ کر فلیٹ کے دروازے کے پاس پہنچ کر بیل بجائی۔ دروازہ زارا نے کھولا اور اُس کو دیکھ کر بے دلی سے واپس اندر کی طرف چلی گئی۔ یاسمین نے اندر آکر دروازہ بند کردیا۔

ان نو سالوں میں اکبر بحیثیت سُپروائزر طارق سُلطان کے ساتھ ہی کام کرتا رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُس نے پچھلا دو کمرے کا فلیٹ چھوڑکر یہ تین کمروں کا فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا ،جہاں ایک اوپن لاؤنج تھا اور پھر لاؤنج سے ہی تینوں کمروں میں داخل ہونے کے دروازے بنے ہوئے تھے۔ مُستقل نوکری ہونے کی وجہ سے مالی حالت پہلے سے کافی بہتر ہوگئی تھی مگر ساتھ ہی اکبر کی مصروفیت بھی بڑھ گئی تھی۔

"سلام ماما!" اُس نے اندر آکر ماں کی طرف دیکھ کر کہا جو لاؤنج کے ساتھ بنے کچن میں برتن سمیٹ رہی تھی۔

"سلام، ختم ہوگئے امتحان تُمہارے؟" زارا نے سلام کا جواب دے کر سپاٹ لہجے میں پوچھا۔

"جی۔" اُس نے مُختصر جواب دیا۔

"چلو اب عاشِر کے پاس بیٹھو مُجھے کام پر جانا ہے اور اُس کا خیال رکھنا۔" زارا اُسے نصیحت کرکے اپنا بیگ اُٹھاکر دروازے سے باہرچلی گئی۔ وہ ماں کے جانے کے بعد بھی کُچھ دیر وہیں کھڑی باہری دروازےکو دیکھتی رہی اور پھر اپنا بیگ وہیں ٹیبل پررکھ کر کچن کے دائیں طرف والے دروازے سے اندر کمرے میں داخل ہوگئی۔ اُس کمرے کے ایک کونے میں  چھوٹا بیڈ تھا ،جس پر چودہ سال کا عاشِر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ بیڈ کے ساتھ ہی سہارا لے کر چلنے والی ایک لکڑی کی اِسٹک رکھی ہوئی تھی۔ یاسمین نے  کمرے میں داخل ہوکر ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا:

"سلام عاشِر ! پڑھائی ہورہی ہے؟"

"سلام، جی آپی اور آپ کے پیپر ختم؟" عاشِر نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔

"ہاں بھئ شُکر ہے ہو ہی گئے ختم۔" اُس نے  نہ چاہتے ہوئے بھی شُکر ادا کیا۔

"اب آگے کیا کرو گی آپ ؟" وہ گھر کے ماحول سے واقف تھا اس لیے بہن سے پوچھا۔

"پتہ نہیں دیکھو ابھی پریکٹیکلز ہیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔" یاسمین نے جواب دیا۔

"چلو آپ ریلیکس کرو پھر مجھے کچھ کام ہوا تو مس کال دے دوں گا آپ کو۔" عاشِر نے اپنے دائیں طرف رکھے موبائل کی طرف اشارہ کرکے کہا تو یاسمین "ٹھیک ہے" کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ اُس نے دوسرے کمرے میں جاکر الماری سے کپڑے نکالے اور پھر فریش ہوکر کپڑے بدل کر سوگئی۔ رات  لاؤنج میں کھانے کی ٹیبل پر وہ چاروں بیٹھے ہوئے تھے۔ رات کا کھانا وہ کبھی کبھار ساتھ کھالیا کرتے تھے ورنہ اکبر زیادہ تر دیر سے ہی گھر لوٹتا تھا۔ سب کھانے میں مصروف تھے جب اکبر نے گفتگو کا آغاز کیا۔

"ایگزام کیسے رہے آپ کے پرنسز؟"وہ اکثر یاسمین کو یہی کہتا تھا۔

"بہت اچھے پاپا! بس اب پریکٹیکلز رہ گئے ہیں۔" اُس نے مُسکراکر بتایا۔ وہ مُسکراتے ہوئے بہت پیاری لگتی تھی مگر مُسکراہٹ اب اُس کے چہرے پہ کم ہی آتی تھی۔

"ہماری بیٹی پڑھائی میں بہت اچھی ہے پریکٹیکلز  بھی خیر سے ہوجائیں گے دیکھنا، اچھا آپ کو پاس ہونے پر گفٹ کیا چاہیئے یہ بتائیں؟" اکبر نے پوچھا۔

"گفٹ کی کیا ضرورت ہے سب کچھ تو ہے اِس کے پاس" یاسمین سے پہلے زارا بول پڑی۔

"زارا! میں نے اپنی پرنسز سے وعدہ کیا تھا اور یہ ہم باپ بیٹی کامعاملہ ہےبھئ تم اس میں نہ بولو۔" اکبر نے بہت نرمی سے کہا۔

"پاپا! مجھے نیا موبائل چاہیئے یہ والا دو سال سے یوز کررہی ہوں میں۔" یاسمین نے اپنا موبائل دِکھاتے ہوئے کہا۔

"آں ہاں" زارا کچھ کہنے لگی تو اکبر نے اُسے روک دیا، پھر بیٹی سے مُخاطب ہوا۔

"ٹھیک ہے آپ کو جو موبائل چاہیئے، آپ مجھے اُس کی پکچر بھیج دیناوہ آپ کو مل جائے گا۔" اکبر نے کہا تو یاسمین کا چہرہ کِھل اُٹھا۔

"تھینک یو سو مچ پاپا!" اُس نے محبت سے کہا۔

"Anything for you princess۔" اکبر نے بھی پیار سے جواب دیا۔

"اکبر! تُم نے لیپ ٹاپ بھی لاکر دیا ہوا ہے، اب نیا موبائل بھی دے رہو کم ازکم اُسے پیسوں کی رینج تو بتادو اگر وہ لاکھ روپےکا مانگ لے گی تو وہ بھی لیکر دے دو گے کیا؟" زارا نے ایک اور اعتراض کیا۔

"دیکھو لیپ ٹاپ ضروری ہے آج کل بچوں کی تعلیم کے لیے اور وہ بہت سمجھدارہے اُسے اپنے پاپا کی رینج پتہ ہے ،پھر بھی  اگر وہ لاکھ روپے کا مانگتی ہے تومیں لے کر دے دوں گا میرے لیے مسئلہ نہیں ہے اب۔" اکبر نےاُس کو تسلی دی۔

"جی پاپا! میں دس سے پندرہ ہزار تک کا کوئی لوں گی۔" یاسمین نے ماں کی مزیدتسلی کے لیے بتایا۔

"ٹھیک ہے بیٹا ۔" اکبر نے کہا۔

"بیٹا آپ نے بھی کُچھ منگوانا ہے تو بتادو کوئی گیم یا کوئی اور پسند کی چیز؟" یاسمین سے بات مُکمل کرکے اکبر نے عاشِر سے پوچھا۔

"نہیں پاپا! ابھی نہیں۔ کُچھ ٹائم میں ایگزامز ہیں میرے اُس کے بعد بتادوں گا آپ کو۔" عاشِر نے مُسکراکر باپ کو بتایا۔

"اچھا پاپا! مجھے آگے انجینیئرنگ پڑھنی ہے۔" یاسمین نے موقع غنیمت جان کراپنی خواہش کا اِظہار کردیا۔

"کِس لیے پڑھنی ہے انجینیئرنگ تُم کو؟ انٹر کرلیا اب گھر پر بیٹھو اور بھائی کو سنبھالو۔" زارا نے اکبر کے کہنے سے پہلے ہی فیصلہ سُنادیا۔

"ماما میں رکھتی ہوں اِس کا خیال آپ پوچھ لیں عاشِر سے۔ آپ بار بار مت کہا کریں مُجھے۔" یاسمین اُس کی بات پر چِڑگئی تھی۔

"دیکھ رہے ہو تُم اکبر! اب یہ مُجھ سے بحث کرنے لگی ہے۔" زارا نے اکبر سے شِکایت کی جو اِس اچانک کی بحث سے پریشان ہوگیا تھا۔ عاشِر  اِس دوران خاموش تھا، وہ ویسے بھی کم ہی بولا کرتا تھا یا شاید اُس حادثے کے بعد خاموش ہوگیا تھا۔

"زارا! تُم دو مِنٹ  مُجھے بات کرنے دو۔" اکبرنے اُسے خاموش کرایا اور یاسمین سے مُخاطِب ہوا۔

"بیٹا آپ انجینیئر بن کر کیا کروگی؟ ڈاکٹر بنو توبات بھی ہے کہ نوکری پھر بھی مل جائے گی مگر انجنیئر وہ بھی لڑکی کو نوکری نہیں ملتی یہاں۔" اکبر کی بات سُن کر زارا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں مگر وہ خاموش رہی۔

"پاپا! میرا انٹرسٹ نہیں ہے میڈیکل میں اور جاب تو قسمت سے ملتی ہے، مگر میں کوشش کرنا چاہتی ہوں پڑھنا چاہتی ہوں آگے پلیز۔" اُس نے بہت بیچارگی سے اِلتجا کی۔لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی گڑگڑانا پڑتا ہے ہمارے معاشرے میں۔

"ٹھیک ہےآپ پڑھ لینا بس ماما کو بھائی کے حوالے سے کوئی شِکایت نہ ہو۔" اکبر نے اجازت دی تو خوشی سے اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

"آئی لو یو پاپا!" وہ کہہ کر اکبر کے گلے لگ گئی۔ زارانے اب بھی کُچھ نہیں کہا۔

اتنے میں عاشِر اپنا کھانا ختم کرکے اُٹھنے لگا۔ اُسے دیکھ کر یاسمین اپنی کُرسی کے پاس سے پیچھے نکلنے لگی تاکہ اُسے کمرے تک جانے میں مدد کرے تب ہی زارا نے اُسے مُخاطب کرکے کہا۔

"یاسمین بھائی کو روم تک چھوڑآؤ۔"

"پاپا آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں جا ہی رہی تھی مگر ماما کو مُجھے بار بار بولنا ہے بس۔"  اُس نے رُک کر باقاعدہ روتے ہوئے باپ سے کہا۔ وہ بار بار کی ایک ہی نصیحت سے تنگ آگئی تھی۔ پہلے پہل وہ نظرانداز کرکے سُن لیتی تھی مگر اب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ماں کو جواب دینے لگی تھی، جس سے گھر کا ماحول مزید بگڑرہا تھا۔

"بیٹا آپ بھائی کو لے کر اندر جائیں۔" اکبر نے کہا تو وہ اپنے آنسو صاف کرتی عاشِر کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔

"زارا! کیا ہوگیا ہے یار تُمہیں؟ وہ بیٹی ہے تُمہاری۔" اکبر نے اُسے بہت پیار سے یاد کرایا۔

"ہاں تو میں نے کیا کردیا ایسا؟ ماں کیا کُچھ کہہ نہیں سکتی بیٹی کو؟آپ کے لاڈ پیارنے بِگاڑدیا ہے اِسے، دیکھا کیسے پلٹ کر جواب دینے لگی ہے وہ۔" زارا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔

"ایسے بار بار کہنے سے انسان تنگ ہوجاتا ہے یار۔ تُم کچن میں روز برتن دھونے کے لیے اُٹھو اور اُسی وقت میں تُمہیں کہوں کہ زارا برتن دھودو، تو کیسا لگے گاتُم کو؟" اکبر نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔

"میں نے کسی کام کا نہیں بولا ،عاشِر کا خیال رکھنے کا ہی کہا تھا۔" اُس نے پھر وضاحت دی۔

"خُدا کا واسطہ ہے زارا! دو سال ہوگئے ہیں اب اُس واقعے کو بھول جاؤ۔ وہ عاشِر کی بہن ہے،اُس کی بہت کیئر کرتی ہے وہ۔" اکبر نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

"کیسے بھول جاؤں میں اکبر! نہیں جاتا میرے ذہن سے وہ واقعہ۔ کتنے خواب تھے میرے عاشِر کے لیے، سب ختم ہوگئے ۔ کاش وہ سب نہ ہوا ہوتااکبر! کاش۔" وہ اکبر کے کندھے پرسر رکھ کر رونے لگی تھی۔

"ایسا نہیں کہتے کچھ ختم نہیں ہوا۔ خداوند کی یہی مرضی تھی زارا !ہم دُعاکریں گے تو عاشِر ٹھیک ہوجائے گا جلدی۔ روتے نہیں اگر تُم رونے لگ جاؤگی تو عاشِر کیا سوچے گا۔" اکبر اُسے اندر کمرے میں لے گیا مگر عاشِر کے کمرے سے نکلتی ہوئی یاسمین نے ماں کو روتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

وہ عاشِر کے سونے تک اُس کے کمرے میں ہی لیٹی رہتی تھی۔ عاشِر بیڈ پر جبکہ وہ نیچے زمین پر گدّا بچھاکر لیٹ جاتی تھی۔ باپ نے بہت کہا تھا کہ عاشِر کے کمرے میں ایک اور چھوٹا بیڈ لے آتے ہیں مگر اُس نے منع کردیا تھا۔ عاشِر کے سونے کے بعد وہ اپنے کمرے میں جاکر لیٹ جاتی تھی۔ ابھی اِتنی رات نہیں ہوئی تھی مگر گھر کے کشیدہ ماحول کی وجہ سے سب جلدی جلدی سونے لیٹ گئے تھے۔ وہ بھی لیٹی ہوئی اِس وقت اپنا بچپن یاد کررہی تھی، جب عاشِر چھوٹا تھا اور وہ ماں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی ۔ پھر چرچ جاتے وقت بھی وہ خود سے بار بار ماں کا ہاتھ پکڑلیتی تھی جب ماں ایک ہاتھ سے عاشِر کو پکڑے چل رہی ہوتی تھی۔ ہر اتوار کو زارااُس کےسر میں تیل لگایا کرتی تھی اور وہ فرمائش کرکرکے دیرتک سرکی مالش کرواتی تھی۔ اُس کے اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر زارا اُسے گھر آتے ہی گلے لگاکر پیار کرتی تھی، پھر اُس کی پسند کاکھانا بناتی تھی۔

یادوں کی فلم آگے بڑھتے بڑھتے اُس موڑ پر آگئی تھی جہاں سے اُس کا ہنستا کھیلتا خاندان یکدم خاموش ہوگیا تھا۔ اُس کے میٹرک بورڈ کے امتحانات سے پہلے، اِسکول میں آخری امتحانات چل رہے تھے۔ ساتھ میں عاشِر کے بھی امتحانات ہورہے تھے۔ وہ عاشِر کو ساتھ لے کر اسکول جاتی تھی۔ کبھی دیر ہوجاتی تو وہ پہلے اکیلے ہی اِسکول چلی جاتی تھی اور عاشِر کو زارا اِسکول چھوڑتی تھی۔ واپسی میں دونوں بہن بھائی ساتھ آتے تھے۔ اُن کے اِسکول کے راستے میں ہائی وے کی ایک سڑک پڑتی تھی جہاں بہت تیز ٹریفک ہوا کرتا تھا۔  اس لیے زارا، عاشِر کو اکیلے اِسکول نہیں بھیجتی تھی۔ اُس دن یاسمین اسکول جانے کے لیے تیار تھی۔ اُسے تھوڑا پہلے اِسکول پہنچ کر دوستوں سے کُچھ چیزیں پوچھنی تھیں۔ زارا ،عاشِر کو یونیفارم دے کر اُس کا بستہ تیار کررہی تھی ۔

"ماما آج آپ لے آئیے گا عاشِر کواِس نے ابھی ناشتہ بھی کرنا ہے، مجھے کچھ کام ہے میں جارہی ہوں۔" یاسمین نے کمرے سے باہر آکر ماں سے گلے مل کر کہا۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ اِس کے بعد وہ پھر کب ماں سے گلے ملے گی۔

"بیٹا پانچ منٹ رُک جاؤ مُجھے بھی ورنہ کپڑے بدلنے پڑیں گے۔" زارا نے اُسے رُکنے کو کہا۔

"ماما پلیز آپ لے آئیے گا ،میرے کچھ سوال رہتے ہیں جو وہاں دُہراؤں گی۔" یاسمین جواب دے کر دروازے کی طرف جانے لگی۔

"اچھا آپ جاؤ ،دھیان سے جانا خُداوند کامیاب کرے۔" زارا نے مُسکراکر دُعا دی اور پھر عاشِر کو بہن کے جانے کی اِطلاع دے کر سیدھی کپڑے بدلنے چلی گئی۔ کپڑے تبدیل کرکے وہ آئی تو عاشِر کا ناشتہ ختم ہونے والا تھا۔ ناشتے کے بعد بیٹے کو لے کر تیزی سے اسکول کی طرف چل پڑی۔ وہ لوگ اُس ہائی وے والی سڑک کے نزدیک ہی تھے، جب زارا کو یاد آیا کہ وہ جلدی جلدی میں دروازہ لاک کرنا بھول گئی تھی۔ اُن کے علاقے میں چوریاں بہت ہورہی تھیں۔ عاشر کو اسکول چھوڑکر آتی تو دیر ہوجاتی۔ بیٹا تھک نہ جائے یہ سوچ کر اُس نے عاشِر کو وہیں کھڑا رہنے کی تلقین کی اور پھر واپس گھر کی طرف بھاگی۔ گھر کو تالا لگاکر جب وہ واپس اُس جگہ پہنچی تو اُسے دور سے ہی سڑک پر لوگوں کا ہجوم نظر آگیا تھا۔ جہاں بیٹے کو چھوڑکر گئی تھی وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دوڑتی ہوئی لوگوں کو ہٹاکر وہاں پہنچی تو اُسے لگا اُس کا سر گھومنے لگا تھا۔ عاشِر کا ایکسیڈنٹ ہوچکا تھا۔ اُس کے سر اور پیر سے خون بہہ رہا تھا۔ زارا ایمبولنس  کو بلانے کے لیے شور مچانے لگی تو وہاں کسی نے بتایا کہ ایمبولنس کو کال کردی گئی تھی۔

"آنٹی یہ کلاس کے دوسرے لڑکوں کو دیکھ کر خودسڑک پار کررہا تھا،تب ہی ایک گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔" وہاں موجود عاشِر کی کلاس کےایک لڑکے نے اطلاع دی۔

زارا نے ایمبولنس میں بیٹھ کر اکبر کو کال کردی تھی۔ وہ بھی فوراً ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ بروقت ہسپتال لے جانے کی وجہ سے زیادہ خون نہیں بہا تھا۔ سر میں کچھ چوٹیں آئی تھیں جبکہ دائیں پیر کی ہڈّی میں فریکچر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے پیر میں اسٹیل کی راڈ ڈالی گئی تھی۔ تین مہینے بعد عاشِر اِسٹک کے سہارے سے چلنے کےقابل ہوگیا تھا لیکن گھرکا ماحول پھر پہلے جیسا نہیں ہوسکا تھا۔

زارا اِس حادثے کے لیے خود کو اور یاسمین کو ہی ذمّہ دار ٹھہراتی تھی۔ ڈھائی سال پہلے جب گھر کے مُعاشی حالات بہتر ہوگئے تھے تب اکبر کے کہنے پر زارا نے اپنا سِلائی کڑھائی کا کام چھوڑدیا تھا مگر عاشِر کے ایکسیڈنٹ کے بعد وہ بہت چِڑچِڑی ہوگئی تھی اور آئے روز یاسمین پر غُصّہ کرنے لگی تھی۔ اِس لیے اکبر سے بات کرکے خود کو یاسمین سے دور رکھنے کے لیے وہ اب دوبارہ کام پر جانے لگی تھی۔ پھر بھی پِچھلے دو سال سے کم و بیش یہی روٹین چل رہا تھا۔ ہر ہفتے، دس دن میں  کسی نہ کسی بات پر یاسمین اور زارامیں بحث شروع ہوجاتی تھی جس کا اختتام یاسمین کے رونے پر یا زارا کے چیخنے چِلّانے پر ہوتا تھا۔ اب وہ یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ آخری بار کب ماں نے اُس سے مُسکراکر بات کی تھی یا مُسکراکر اُس کی طرف دیکھا تھا اور اُسے واقعی یاد نہیں آرہا تھا۔  شاید وہ ایکسیڈنٹ والا دن ہی اُن کی خوشگوار بات چیت کا آخری دن تھا۔ وہ سر کےنیچے سے ہاتھ نکال کر آنکھوں پر رکھ کر رونے لگی تھی۔

"آپی! آپ رورہی ہو؟" اُسے روتا دیکھ کر بیڈ پر لیٹے عاشِر نے سوال کیا۔

"کیا ماما کبھی مُجھے معاف کریں گی؟" اُس نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹاکر بھائی سے پوچھا۔

"وہ آپ سے خفا نہیں ہیں آپ جانتی ہو۔ وہ خود سے اور مُجھ سے خفا ہیں لیکن وہ خود پریا مُجھ پر غُصہ نہیں کرسکتی ہیں اِس لیے آپ کوکہتی ہیں۔ آپ تھوڑا کنٹرول کرلیا کرو ناں، اُن کو جواب مت دیا کرو۔" اُس نےبہن کو سمجھایا۔

"ہر بار کوشش کرتی ہوں کہ اب نہیں بولوں گی مگر اُس وقت پتہ نہیں مُجھے کیا ہوجاتا ہے۔"  اُس نےافسوس سے کہا۔

"چلو اب ٹینشن مت لو آگے سے کوشش کرنا کہ بس سُن لو سب ٹھیک ہوجائے گا۔" اُس نے تسلی دی۔

"تھینک یو میرے سمجھدار بھائی۔" اُس نے آنسو صاف کرتے ہوئے مُسکراکر کہااور پھر سونےکے لیے آنکھیں بند کرلیں۔

جاری ہے۔۔۔

This topic was modified 8 months ago by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?