وہ بچہ جو کل تک ماں کی گود میں مسکراتا تھا
آج اُسی ماں کی جھولی میں بےجان پڑا تھا۔
عمر کی چھوٹی سی قمیض مٹی میں گم ہو چکی تھی،
اور نور کی آنکھیں اب کبھی نہیں کھلنے والی تھیں۔
ابا کی ٹوٹی ٹانگ سے بہتا خون،
اس شہر کی بہتی ہوئی انسانیت کا ماتم کر رہا تھا۔
مگر…
“نہ کوئی چیخ سننے آیا،
نہ کوئی دعا سنبھالنے۔
بس سانسیں تھیں…
جو اب خاک ہو چکی تھیں۔”