محبت اخلاق سے ہوتی ہے۔ انسان کا رویہ یہ بہت اہم کردار ہوتا ہے، محبت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے۔ نیت صاف ہو اور یقین پکا ہو تو انتظار۔۔۔۔۔ انتظار رائیگاں نہیں جاتا ہے۔ انتظار کا سفر اور یقین کا سفر سب موجود ہے اس بےلگام سفر میں۔
انسان اپنے رب کے فیصلوں سے لاعلم ہے، وہ اس بات کا اندازہ کبھی نہیں لگا سکتا اور نہ ہی اپنے رب کے فیصلوں کو سمجھ سکتا ہے۔ خدا اپنے بندے کے ساتھ کبھی ناانصافی نہیں کرتا۔ انسان کو اُسی چیز سے نوازتا ہے جس کا وہ حقدار ہوتا ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اُس کی کی گئی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ کسی نہ کسی موڑ پر اللہ نے اپنے بندے کے لیے رہنمائی کے دروازے کھولے رکھے ہوتے ہیں۔ بس ہمیں اُن تک خود پہنچنا ہوتا ہے۔ وسیلوں کے ذریعے اور سیکھے گئے سبق کے ذریعے۔
اللہ نے ہر انسان کو اُس کی سوچ سے زیادہ نوازا ہے۔ زندگی اک امتحان ہے، کسی کو دنیا میں بہت کچھ دے کر نوازا گیا ہے تو کسی سے لے کر۔ غرض یہ ہے کہ انسان اپنے اچھے اور برے وقت میں کتنا شکر ادا کرتا، کتنا صبر سے کام لیتا ہے۔ دنیا میں سب سے امیر انسان وہ ہے جس کے والدین حیات ہیں۔ سر پر والدین کا سایہ ہونا کسی نعمت اور خوشنصیبی سے کب نہیں۔
محبت کسی کی بھی باتوں کی وجہ سے یا غلط بیانی کی وجہ سے ختم نہیں ہوتی۔ محبت تو یقین کا نام اور یقین کسی دوسرے کی چند باتوں کی وجہ سے ٹوٹتا نہیں۔ بےشک انسان بہکاوے میں آسکتا ہے۔ لیکن انسان وہی ہوتا ہے جو صرف دوسروں کی بات سنے، اُس پر فوراً سے عمل کرنے والا انسان نہیں ہوتا۔ اگر انسان دوسروں کی بات سن کر عمل کر لے تو اُس کو تباہ ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا ہے۔
ہم چاہے کسی کو کتنا ہی کیوں نہ مانگ لیں، اگر وہ ہمارا نہیں تو ہم تک آکر بھی چلا جاتا ہے، اور پھر کوئی کسی سے نفرت کرنے لگ جائے۔۔۔۔ محبت سے نفرت تک کا سفر تو پھر انسان کو برباد کر ہی دیتا ہے، کوئی چال چلے یا نہیں مگر دل میں آئی گئی نفرت کی رنجش کہاں رد کی جاتی ہے۔ ہماری بےتحاشا کی گئی دعائیں بھی اگلے کو پوری طرح سے محفوظ نہیں کر سکتی اور خاص طور پر تب جب کوئی آپ کو دل سے آہیں دے چکا ہو۔