Kitaben

Ask for More Information

Kitaben written by Neha Khan

کتابوں کی طرح چپ رہتے ہیں انسان
اپنے اندر کئی راز چھپا کر !
الفاظ ” کتاب ” سے ہمارے ذہن میں کون سی کتابیں آتی ہیں ؟ اسکول کی کتابیں ، ہماری اسلامی کتاب ” قرآن ” یہ پھر اپنی کسی پسندیدہ رائیٹر کی کتاب ۔ ان میں سے ایک کتاب تو ذہن میں آتی ہوگی ۔ لیکن میں یہاں کتاب کو انسان سے مشابہت دیتا ہوں ۔ کیونکہ ہم سب نے اپنی زندگی میں یہ ضرور سننا ہوگا کہ انسان ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے ۔ مجھے پہلے اس فرقے کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا ۔ انسان کا کتابوں سے کیا تعلق ؟ لیکن جلد ہی مجھے اس فرقے کا مطلب سمجھ آگیا تھا اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے ۔۔
میرا نام ارسلان ہے اور میں اس وقت بارہ سال کا تھا ۔ میں اور میرے چار دوست عمران ، عامر ، دانش اور ہمزہ ہم پانچوں محلے کی جان تھے ۔ زندگی اس وقت بہت حسین تھی ۔ دوستوں کے ساتھ تین۔ چار گھنٹے باہر کھیلنا ، ایک دوسرے کی چیزیں چھین کر کھانا ، ساتھ مدرسہ اور ٹیوشن جانا ، اگر ایک دوست کی لڑائی ہوتی تو سب کا لڑ جانا ۔ مستقبل کی تو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے پوری زندگی ابو ہی کمائیں گے اور ہم ایسے ہی شکیل انکل کی دکان پر کلفیاں کھاتے رہیں گے ۔
میرے چار دوست اور میں یعنی ہم پانچ ایک مٹھی بن کر رہتے تھے ۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ، ایک دوسرے سے باتیں شیئر کرنا ، کھیلنا کودنا بس اس وقت زندگی یہی تھی ۔ پر آہستہ آہستہ ہم بڑے ہوتے رہے۔ اب ہم نے کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر طے کرلیا تھا ۔ لیکن ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی اور مضبوط ہوتی رہی ۔ ہم چاروں دوست یعنی میں ، عمران ، عامر اور دانش ہم پہلے جیسے ہی تھے پر ہمزہ ۔۔۔ ہمزہ میں ہم نے کچھ تبدیلیاں محسوس کی تھیں ۔ ہمزہ کا ہم میں اٹھنا بیٹھنا کم ہوگیا تھا اور اگر وہ ہم میں موجود بھی ہوتا تو اس کی موجودگی کا ہمیں پتا ہی نہیں چلتا تھا ۔ وہ بس چپ رہتا اور تھوڑی دیر بعد آٹھ کر چلا جاتا ۔ ہم چاروں نے یہ بات نوٹ کی تھی ہمیں لگا کہ وہ تھک جاتا ہوگا کیونکہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری بھی کرتا تھا اور پھر شام میں ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا ۔ کیونکہ اب ہمزہ کے ابو کی طبیعت خراب رہتی تھی ۔ ہفتے میں جہاں ہم چاروں روز ملتے تھے وہیں ہمزہ سے ملاقات ہماری صرف ہفتے اور اتوار کو ہوتی تھی۔ ہم ہفتے اور اتوار کو دیر رات تک جاگتے تھے اور باہر بیٹھ کر لوڈو کھیلتے تھے ساتھ اپنی بچپن کی باتیں بھی کرتے تھے ۔ لیکن ہم یہ بات بھی ساتھ ساتھ نوٹ کرتے تھے کہ ہمزہ خاموشی سے ہماری باتیں سنتا رہتا اور بات بات پر صرف مسکرا دیتا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا وجود یہاں ہے پر دماغ کہیں اور ، کہیں کسی گہری سوچ میں ۔۔
ہم نے دو تین بار اس سے پوچھا بھی تو وہ بس کہتا کہ
” کوئی بات نہیں ہے تم لوگ پریشان نہیں ہوا کرؤ “
ہم چاروں ایک دوسرے کو دیکھتے اور کہتے ٹھیک ہے ۔
لیکن مجھے پھر بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا ۔ ہمزہ بند کتاب کی طرح اپنے اندر کوئی راز چھپا کر بیٹھا ہوا تھا ، اور مجھے بے چینی ہو رہی تھی اور دل چاہ رہا تھا کہ میں اس کتاب کو کھول کر پڑھوں ۔
” ایک مہینے بعد “
میں عشاء کی نماز پڑھ کر گھر جارہا تھا ، تب مجھے ہمزہ گراؤنڈ میں اکیلا بیٹھا ہوا دیکھا ، ۔میں اسے وہاں اکیلا بیٹھا دیکھ کر حیران ہوا اور سیدھا اس کے پاس چلا گیا۔
” ہمزہ ” میں نے اسے پکارا ۔ اس نے میری طرف دیکھا اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت رویا ہو ۔ میں فوراً اس کے پاس بیٹھا اور اس سے پوچھا ۔
” کیا ہوا ہے تجھے “؟ ادھر میری طرف دیکھ تیری آنکھیں لال کیوں ہورہی ہیں ؟ تو رویا ہے کیا ؟ میں نے ایک ساتھ سوال کر لیے تھے ۔ لیکن مجھے ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں ملا ۔ میں نے پھر ہمزہ کا چہرہ اپنی طرف موڑا اور جو دیکھا اس کو دیکھ کر میں ایک منٹ کے لیے سکت ہوگیا ۔ ہمزہ رو رہا تھا ۔
” کیا ۔۔۔ کیا ہوگیا ہے تجھے ؟ تو رو کیوں رہا ہے ؟
ادھر آ ۔۔ میں نے اسے گلے گلا لیا تھا تو وہ میرے گلے لگتے ہی زاروقطار کر رونے لگا ، میں نے اسے رونے دیا اور جب وہ رو رو کر تھک گیا تو میں نے اس سے پوچھا ۔
کیا ہوا ہے ہمزہ رو کیوں رہا ہے اب بتا! اس نے بھیگی اور سوجھی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور لرزستی آواز میں کہا ۔
” یار ابو کی طبیعت مزید خراب ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ان کے پاس تھوڑا وقت بچا ہے ۔ میں کیا کرؤں گا ابو کے بنا ؟ ابھی تو بہت ذمہداریاں ہیں ، تجھے پتا ہے نہ کہ میری تین بہنیں ابھی کنواری ہیں ۔ اگر ابو چلے گئے تو سب کیسے چلے گا ؟ کہتے ساتھ ہی ہمزہ نے روتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔ اور میری حالت یہ تھی کہ میرا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا میں نے تھوک نگلتے ہوئے ہمزہ سے کہا ۔
“تو نے ہم سب سے کیوں نہیں کہا ؟ اور تجھے انکل کی حالت کے بارے میں کب پتا چلا ؟ ہمزہ نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اس کی مسکراہٹ میں بھی درد تھا ۔
” میں کیا کہتا تم لوگوں سے ؟ کیا کہتا بتاؤ۔۔ یہ کہتا کہ میرے ابو مرنے والے ہیں اب ہمارا کوئی نہیں ، اب جب تم لوگ کسی کو زکوٰۃ دوگے تو پہلے ہمیں یاد رکھنا ۔ کہنے کے بعد اس نے سر جھٹکا ۔
” تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے یہ کیسی باتیں کر رہا ہے تو ۔ میں نے تیز آواز میں ہمزہ سے کہا ۔
” تو کیا کرؤں میں ہاں ! چل بتا مجھے کیا کرؤں میں۔ ہمزہ مجھ سے بھی تیز آواز میں بولا ۔ کیسے سہارا دوں گا میں اپنی فیملی کو ؟ نوکری کرکے اور ٹیوشن پڑھا کر بھی اتنا نہیں کما لیتا کہ اپنے گھر کا خرچ اٹھا سکوں ۔۔
“وہ کتاب جو اتنے دنوں سے بند تھی وہ کھل چکی تھی”
در در کی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہوں اچھی نوکری کے لیے لیکن کوئی نہیں دیتا ان حرام خوروں کو رشوت چاہیے ۔
میں دن با دن پاگل ہوتا جا رہا ہوں ، راتوں کو نیند نہیں آتی ہے مستقبل کا سوچ سوچ کر ۔ ہمزہ کی آنکھوں سے آنسوں مسلسل روادواں تھے ۔ اس کے ایک ایک آنسوں مجھے تکلیف دے رہے تھے ، کیونکہ میں نے اپنے کسی بھی دوست کو اس عمر میں روتا ہوا نہیں دیکھا تھا ۔
بچپن کی بات الگ تھی بچپن میں اگر کسی دوست کی امی اسے مارتی تھیں تو ہم خوب ہنستے تھے اور اس کا پورا ایک ہفتہ مزاق اڑاتے تھے ۔ لیکن امی تو غلطی پر مارتی تھیں تو رونا آتا تھا ، لیکن یہ حالات ۔۔۔ یہ حالات تو بنا کسی غلطی پر مارتے ہیں پھر بھی رونا آتا ہے۔
دوسرے دن ہی میں نے اپنے تینوں دوستوں کو سارا قصہ سنایا تھا ان کی بھی وہی حالت تھی جو اس وقت میری تھی ۔ ہم چاروں نے مل کر ہمزہ کے لیے نوکری ڈھونڈنا شروع کر دی تھی اور بلاآخر پورے چھ مہینوں بعد ہمیں ایک مناسب نوکری ہمزہ کے لیے مل گئی تھی۔ ان چھ مہینوں میں ہمزہ کے ابو کا انتقال بھی ہو چکا تھا اور ہمزہ بلکل توٹ پھوٹ گیا تھا ۔ ہم چاروں ہمزہ کے لیے نوکری تلاش کر رہے تھے یہ بات ہم نے اس کو نہیں بتائی تھی ۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ ہمارا احسان مند رہے ۔ نوکری کا لفافہ ہم نے دروازے کے نیچے سے ہمزہ کے گھر ڈال دیا تھا۔ اور اب ہمیں بے صبری سے انتظار تھا کہ کب ہمزہ آکر ہمیں اس نوکری کے بارے میں بتائے ۔
ہفتے کی رات ہم سب معمول کے مطابق شکیل انکل کی دوکان کے باہر بیٹھ کر لوڈو کھیل رہے تھے ۔ تبھی ہمزہ خوش خوش ہمارے پاس آیا اور اپنی نوکری کے بارے میں ہمیں بتانے لگا ۔ اس نے ہم سے کہا کہ ۔۔
” میں نے تو اس کمپنی میں نوکری کے لیے درخواست بھی نہیں دی تھی تو پتا نہیں کیسے نوکری کا لفافہ آگیا ؟
ہم چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور چاروں کے چاروں انجان بن گئے ۔ اس دن مجھے پتا چلا کہ ہم چاروں اداکاری میں بہت اچھے ہیں اور یہ کہ انسان ایک کھلی کتاب ہے اگر اسے کوئی سننے اور سمجھنے والا ہو ۔ ہر کتاب اپنے اندر ایک راز ہے اسی طرح ہر انسان بھی اپنے اندر ایک راز ہے ۔ ہمیں ان رازوں کو افشاں کرنے کے لیے ان تک خود پہنچنا ہوگا ۔ اپنے اردگرد ان کتابوں کو تلاش کریں آپ کو یہ کتابیں اپنے گھر میں ، اپنے دوستوں میں ضرور ملیں گی ۔ آپ انہیں سہارا دیں اور انہیں سنے ایسا نہ ہو کہ یہ انمول کتابیں اپنی پریشانیاں ، اپنے دکھ ، اپنی خواہشیں اپنے اندر رکھ کر اس دینا سے رخصت ہو جائیں۔
ختم شد 

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Kitaben”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?