AuthorsPoetry

Poetry Collections by Hashim Ibn e Khalid

Ghazliyaat

(ہم  نے دیکھا ہے )

چلو۔۔۔۔۔۔ مانا کہ تم نے سارا جہاں دیکھا ہے

پر میں نے اپنوں کی زبانوں پے زہر دیکھا ہے

اور یُوں تو ملتے ہیں روز کئی لوگ سر بازار مجھے

لیکن میں نے اپنے خاص کے ماتھے پہ غیر لکھا دیکھا ہے

تھوڑا دھیان سے رہنا یہ ڈس لیتے ہیں بھرے پیار سے

یار! مَیں نے انسانوں کے رُوپ میں سانپ دیکھا ہے

بیوفا تو ہے لیکن شاید وہ واپس آجاۓ لوٹ کے

یار! میں نے مسجد میں بھی کافر کو آتے دیکھا ہے

تھوڑا غور سے دیکھا کر ان خاص چہروں کو ذرا تُو

میں نے ہر اپنے کے چہرے پے مطلب لکھا دیکھا ہے

مُجھ سے بہتر, مجھے جو شخص جانتا ہے نہ ہاشی

خُدا قسم! مَیں نے وہ شخص صرف آئینے میں دیکھا ہے

****************

 

 (ڈوب جاؤں گا)

مُجھ پے زوال ہی صحیح ججتا ہے 

میں عروج پے آیا تو ڈوب جاؤں گا

سمندر پہ لے جا، اُسکی کُچھ خاص گہرائی نہیں

پر اُسکی آنکھوں کی گہرائی میں مَیں ڈوب جاؤں گا

جلا تو دیتا ہوں، پر یُوں نہ جلا کرو تُم لوگ مُجھ سے

کہا تو ہے! سورج ہوں آہستہ آہستہ ڈوب جاؤں گا

یار کیا فائدہ اتنی گرم تاثیر کا مُجھے

سورج ہو کے بھی  بھی ڈوب جاؤں گا

میں سورج کی مانند ہی ہوں ہاشی

اِک صحیح وقت آنے پہ ڈوب جاؤں گا

****************

 

(کر جاؤں گا)

اس کی آنکھوں میں تمہیں آنسوؤں دکھاؤں گا

اُس کی آنکھوں کے سامنے میں مر جاؤں گا

اِک پتھر کو میں موم کر جاؤں گا

گویا میں اپنا ایسا حال کر جاؤں گا

گھر سے نکلا ہوں منزل کی تلاش میں

میں کیسے خالی ہاتھ مُر جاؤں گا

یہ آئینہ نہ ہی دیکھا مجھے میرے ہمدرد!

جانتا ہوں میں اپنا حال دیکھ کہ ڈر جاؤں گا

اور یہ سُخن كا سلسلہ ہمیشہ رواں رکھنے کے لیے

تُم لوگ فکر نہ کرو میں کُچھ نہ کُچھ لکھ جاؤں گا

ان دیوانوں کی پسند جانتا ہوں میں بھرے اچھے سے

سو ان کے مطابق کی دو چار غزلیں بنا جاؤں گا

اور میں اسے پانے کی خوشی سے ہاشی

یہ ساری شاعری اس کے نام کر جاؤں گا

***************

 

 

(انصاف)

کیا نہیں ہوتا زمانے کی طرح میرے ملک میں

سب کُچھ ہوتا ہیں ادھر بس انصاف نہیں ہوتا

میرے بزرگوں کا قول ہی سمجھ لو اِسے

اِک بھی سیاستدان اب ایماندار نہیں ہوتا

کیا ہوا اگر ان کے ضمیر سو گئے ہیں ؟

بھلا اِس جہاں میں کون سا شخص نہیں سوتا

یہ سب دکھاوے کرتے ہیں اندھے ہونے کے

سچ جان کر بھی کس کو سچ معلوم نہیں ہوتا

تُم نے پڑھا نہیں اِس مُلک کے آئین کو کم عقل

اِس خطے میں کبھی غریب کا حق ادا نہیں ہوتا

اِس مہنگائی میں بھی تمہارے سیاستدانوں کے

یعنی تمہارے لیڈروں کے دسترخوان پر کیا نہیں ہوتا

تُم لوگ تو بھوگ ہڑتال کر کے بیٹھ جاتے ہو نہ

بھلا کون سا تمہارا لیڈر پیٹ بھر کر نہیں سوتا

جو شخص بولے نہ کبھی اپنے حق میں

یار انسان اتنا بھی بے ضمیر نہیں ہوتا

میرے وطن کی عدالتوں کا قانون ہے یارو

اِدھر کے امیروں کا کبھی جُرم نہیں ہوتا

کبھی سُنّی نہیں کسی غریب نے یہ آواز کہ

تُو سچ تو بول آخر، یار تُجھے کُچھ نہیں ہوتا

تیری قوم سوئی ہیں تو سوئی رہنے دے ہاشی

پر میرا یہ قلم باغی ہے، یہ کبھی نہیں سوتا

****************

 

 

(چھوڑ دیے)

ہم نے اس لیے بھی پھول کتابوں میں رکھنے چھوڑ دیئے

کہ یہ سوکھنے سے پہلے کاغذ پے نشاں چھوڑ جاتے ہیں

کُچھ اِس لیے بھی زمانے کے رواجوں سے باغی نکلا

کہ اب کے لوگوں کا رواج ہیں کہ وہ چھوڑ جاتے ہیں

یہ وفاداری کی اداکاری ہمارے سامنے نہ کیجیۓ

ہم جانتے ہیں سب وقت آنے پے چھوڑ جاتے ہیں

اور اُن انا پرستوں سے چلی آ رہی ہیں نسل ہماری

جو بات انا پے آنے پہ اپنا حق بھی چھوڑ جاتے ہیں

بہت اُنس رکھتے ہو تُم اپنے خاندان والوں سے

یہ مُردے کو اکیلا قبرستان چھوڑ جاتے ہیں

تُو یقین کرتا ہے انسانوں پہ، تُجھے معلوم ہے کیا

کہ رات ہوتے ہی سائے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں

کیسے یقین کرلوں میں عشق و محبت پے ہاشی

یہاں کے لوگ تو نکاح کر کے بھی چھوڑ جاتے ہیں

****************

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Back to top button

Adblock Detected

Please disable it to continue using this website.