یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو ماں باپ کی لاپرواہی اور اپنے تکلیف دہ ماضی کے باوجود اپ نے اپ کو کمزور نہی پڑنے دیا کہانی ہے ایک ایسے ایک لڑکے کی جو اپنے ماں باپ کی دردناک موت دیکھنے کے باوجود اپنی بہن کو پالا یہ کہانی ہے دوستی کی بے غرض محبت کی قربانی کی .
داستانِ سفر ایک ایسی لڑکی کی جس کی زندگی کا مقصد وہ وعدہ وفا کرنا تھا جو اس سے “کروڑوں سال” قبل لیا گیا تھا”
داستانِ سفر کوئلے سے کندن بننے والوں کی،نعمتوں کی ناقدری کر کے تہی دامن رہ جانے والوں کی،خود سے محبت کرنے والوں کی،خود کو بےمول کر کے بےسکون رہ جانے والوں کی،نظام کے جنگ کی،جیت کے بھی ہار جانے والوں کی۔۔۔
اگر وقت ٹھر جائے۔ سانس ساکن ہو جائے۔ آنکھ نم ہو جائے۔ تو خاموش رہنے کی بجائے اپنی کہانی کہہ ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور جس پل تمہیں لگے کہ اب کوئی تمہیں سننے نہیں آئے گا۔ اس پل لکھ ڈالو۔ اپنی کہانی کو۔ جو اک راز کی صورت ، اک بری یاد کی طرح تمہارے سینے میں دفن ہے۔
صوفیہ سکندر کہانی کا وہ کردار ہے جس نے میرے ہاتھ میں قلم تھما کر مجھ سے اپنی کہانی لکھوائی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگ سنانا چاہتے ہیں مگر سنا نہیں سکتے ۔۔۔کچھ کہانیاں ممنوعہ ہوتی ہیں۔ وہ لفظوں میں کہی نہیں جا سکتیں۔ اور میں اس ممنوعہ کہانی کو رقم کرتی ہوں۔ کچھ سچ، کچھ جھوٹ۔ کچھ حقیقت، کچھ افسانہ۔
اس کہانی کے سب کردار فکشن ہیں، کہانی من گھڑت ہے ۔۔۔مگر ۔۔۔عزیز قارئین ؟
کیا کرداروں پر بیتنے والی اذیت جھوٹی ہوتی ہے؟
بعض کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کسی کی زندگی ہوتی ہیں۔ کسی کا ماضی ہوتی ہیں۔ کسی کے اوپر بیتنے والی قیامت ہوتی ہیں ۔ یہ کہانیاں سننے میں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں مگر جو اس ٹارچر سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے ۔۔۔بس وہی جانتا ہے کہ ازیت کیا ہوتی ہے۔
“شہہ مات” کو لکھنا بھی کسی ازیت سے کم نہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ٹارچر کیا ہے؟ میں کہوں گی اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کاغذ کی سطح پر اتارنا ۔۔۔۔اور پھر کسی تاریک گوشہ میں بیٹھ کر اس ان کہی کو پڑھنا۔ اس درد کو پڑھنا جو آپ کی آنکھیں نم کر ڈالے۔
یہ کہانی ایک فیملی ولاگر اور اس کی فین کی ہے۔۔۔ ایک لڑکی جو ایک مشہور لڑکی کی دیوانی ہے وہ کس طرح اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتی ہے اور اپنے عزیز رشتے کھو دیتی دیتی ہے۔۔۔ اس کی ایک چھوٹی سی غلطی اس کی زندگی کا سب سے بڑا سبق ثابت ہوتی ہے۔
راہ گزر کہانی ہے صبر کرنے والوں کی۔۔۔تنہائیوں میں رونے سسکنے والوں کی۔۔۔ٹوٹ کر بکھرنے والوں کی۔۔۔بکھر کر جڑنے والوں کی۔۔۔ایمان کو پانے والوں کی۔۔۔ظلم مٹانے والوں کی۔۔۔جدا ہو جانے والوں کی
یہ لوگوں کی بھیر میں ٹوٹے اعتبار اور رشتوں کی کہانی ہے۔ یہ کھانی چند شاطر انسانوں کی ہے جو اپنے آپ کو بہترین سمجھ کر اپنا نقصان کر بیٹھے۔ ایک ایسی کہانی جس میں اچھائی اور برائی کی نا ختم ہونے والی جنگ شامل ہے۔ نماز،قرآن اور انسان کی اہمیت شامل ہے۔ بعض اوقات انسان بھول جاتا ہے کہ اس کے اوپر بھی کوئی ہے جو اس کے سب اعمال سے واقف ہے، اور اس بھول میں وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنا شروع کردیتا ہے حالانکہ وہ صرف ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔اور پھر اس کہانی کے ہر کردار نے اس زمینی خدا کا انجام دیکھا۔ایک ایسی کہانی جس سے کچھ سیکھا جائے اور ایک ایسی کہانی جہاں ہر ایک کردار سرمائی ہے۔ نہ سیاہ نہ سفید
یہ کہانی ہے سیرینا کی، ایک خودمختار اور مضبوط لڑکی، جس کی زندگی میں سکون کا دور ختم ہونے کو ہے۔ ماضی نے ایک بار پھر اپنے سائے ڈال دیے ہیں، اور وہی پرانے زخم تازہ کر دیے ہیں! مگر اس بار کیا ہوگا؟ کیا تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے گی، یا پھر سیرینا کے لیے نئی راہیں کھلیں گی؟
دوسری طرف، ریان ہے، ایک نوجوان جس کا حال خوشگوار ہے، مگر ماضی ایک ناخوشگوار یاد۔ وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کے کیا ماضی نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا ہے؟
سیرینا اور ریان کی داستان کو جانیے، ان کے ماضی کی گرہیں کھولیے، اور ان کے جذبات کی گہرائیوں میں ڈوبیے۔ ایک ایسی کہانی جو دلوں کو چھو جائے اور زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرائے۔
(یہ کہانی ہے دو لوگوں کی زین داؤد اور صبحہ شیخ کی ہے ،دو مختلف لوگوں کی ، لیکن اس کتاب میں ایک ایک کردار اپنی کہانی رکھتا ہے،یہ کتاب بہت سی باتوں کو غلط ثابت کرے گی اور بہت کو سچ ۔ اس کتاب میں دوا بھی ہے اور زہر بھی لیکن۔۔ یہ ہم نے سوچنا ہے کہ ہم کس کو چُنیں ۔ اس کتاب میں سفر بھی ہے اور منزل بھی ،کوئی رک کر سفر طے کر رہا ہے اور کوئی بھاگ بھاگ کر ۔ منزل سب کو ملی ہے کسی کو زندگی میں کسی کو امر ہو جانے کے بعد ۔ اس کتاب کے بہت سے کردار ہیں لیکن آج کے زمانے کے ، ہم جیسے ہی ، ہمارے جیسے مسئلے ، اور شاید حل بھی یہیں مل جائیں)
یہ کہانی ایک جوان بیوہ ذرجان کی ہے۔ جو اپنی زندگی اپنے بیٹے کی وجہ سے جی رہی تھی۔ اسکی زندگی پر سکون تھی جبتک اُسکا بچپن کا دوست اسکی زندگی میں واپس نہیں لوٹ آتا۔ جو آتے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ اس مرکزی کہانی کے ساتھ اور بھی کہانیاں چلتی ہیں۔
کہانی ملک کے رکھوالعوں کے گرد گھومتی ہے کہانی کسی ایک شخصیت کا تعاقب نہیں کرتی بلکہ یہ مختلف کرداروں کا مجموعہ ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔ کہانی ہے کرنل جبرئیل کی سربراہی کی زارا جبرئیل کے ساتھ کی میرال خان کی شخصیت کے بھول بھلیوں کی عنصب جہانگیر کی بہادری کی شامیراسامہ کی محبت کی اروا شمس کی پاکیزگی کی ایس کے کی قید کی روپا دیوی کے عشق کی اور صدام حیدر کے انتقام کی ماضی کے دریچوں میں دوبے ان رازوں کی جو کھل کر بہت سی حقیقتیں نگل لیتے ہیں۔ دہلیز کے پار وہ کہانی ہے انصاف کی ملک کی خاطرجان دینے کی اور لڑ کر فتح یاب ہونے کی۔۔۔
لیلیٰ، ایک دل کی گہرائیوں سے ہمدرد ماہرِ نفسیات، اپنی خوبصورت کیفے کی دنیا میں خوشیوں کی تلاش کرتی ہے۔ مگر، جب اس کی راہ آذان سے ملتی ہے—ایک کامیاب کاروباری، جس کی شخصیت میں محبت بھرا نرم پہلو اور خفیہ طور پر مجرموں کی جان لینے والا دوسرا پہلو چھپا ہوا ہے—اس کی دنیا میں طوفان آ جاتا ہے۔
آذان کی پرانی دوستی، جو ایک کڑوی دشمنی میں بدل چکی ہے، ایک ناپسندیدہ کردار کو سامنے لاتی ہے۔ ایک گہری غلط فہمی نے ان کے ماضی کی خوبصورت یادوں کو بدلے کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
لیلیٰ کی زندگی اب ایک پیچیدہ جال میں پھنس گئی ہے، جہاں محبت، راز، اور خطرے کی دھوپ چھاؤں میں، “لوہے محفوظ” کے فلسفے کی حقیقت سامنے آتی ہے—یہ عقیدہ کہ سب کچھ مقدر میں ہے، اور ہر گھڑی میں ہمارے لیے کچھ بڑا اور بہتر چھپا ہوا ہے۔ مشکلات کی اس راہ پر، لیلیٰ اور آیان کو یہ سچائی دریافت کرنی ہے کہ ہر درد اور ہر چیلنج، دراصل ایک بڑی تقدیر کا حصہ ہے
ایک محبت سے محروم لڑکی کی کہانی جو کم سنی میں بیوہ ہوگئی۔۔۔۔۔۔ خاندانی رسم کے مطابق وہ دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ ایک ایسی بیوہ کی کہانی جو ایک رئیس زادے کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔۔۔
ایک ایسے لڑکے کی کہانی جو سب پیسے سے خریدنے پر یقین رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ جو اپنی ہوس پوری کرکے خود تباہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ ایک لڑکی کی بد دعاؤں نے اسے جینا تو دور کی بات مرنے بھی نہ دیا تھا
ایک ایسا بھائی جس نے اپنی بہن کو بیٹی بنا کر پالا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا فوجی جیسے اپنی بہن کی فکر شہادت کی دعا بھی نہ کرنے دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیائے دو روزہ میں ‘”تصنّع “‘ حقیقت سے بالاتر ہے ،اور اِسے بالاتر بنایا ہے تصنّع برتنے والوں نے ۔۔۔۔۔
” ہر کہانی تصنّع آمیز ہے ہر احساس دکھاوا ہے “
کوئی زخمی روح والا جہاں خود کو مضبوط ظاہر کرنے کا جعلی مظاہرہ کر کے شاکر ہو جاتا ہے وہیں کوئی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم بنا دیتا ہے ۔۔۔
تصنّع سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا ،کوئی بچنا ہی نہیں چاہتا!
کوئی اسے دنیا میں شمار کر لیتا ہے تو کوئی دینی اموار کا حصہ بنا لیتا ہے ۔۔۔۔
“صالح عمل میں ریاء نیکی نگل لیتی ہے” اور بس عمل بچ جاتا ہے بے مصرف ۔۔۔بے سود۔۔۔۔!
“بلا شبہ ربِ ذوالجلال اعمال سے بھی واقف ہے اور نیتوں کو بھی جانتا ہے “
تصنّع اصلیت کو چھپا دیتا ہے ہمیشہ کے لیے نہیں لیکن کچھ عرصہ کے لیے ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیشہ کے لیے کچھ نہیں ہوتا اس جہاں میں تو بالکل بھی نہیں!
وہ عرصہ سیکنڈز پر محیط ہو یا صدیوں پر ۔۔۔۔۔جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ویسے ہی اصل کبھی نہیں چھپتا ۔۔۔۔۔۔
ہر بھید کھل جاتا ہے اِس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں۔۔۔!
یہ کہانی ہے دو ایسی روحوں کی جو دنیا میں آ کر بھٹک چکی تھیں، اپنا طے شدہ مقصد بھول کر مزین کردہ دنیا میں کھو گئیں تھیں۔ کیا وہ اپنا اصل پہچان کر مقصدِ زیست حاصل کرنے چل پڑیں گی یا دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیں گی؟