غم
لوگ سنبھل جاتے ہیں کٹھن مراحل سے گزر کر
جو رہ جاتے ہیں غموں میں ڈوبے ہوۓ
وہ اہلِ غم کیا کریں؟
یوں بے سبب الجھے ہوۓ
کبھی ہنستے ہوۓ کبھی روتے ہوۓ
تپتے صحرا کی مانند کبھی جلتے ہوۓ
برف کی مانند کبھی پگھلتے ہوۓ
خوابیدہ کبھی حالات سے لڑتے ہوۓ
کبھی خارزار میںکبھی ڈھلتی شام میں
چلتے رہے دیۓ امیدوں کے بُجھاتے ہوۓ
عمرِ رواں گزر رہی ہے گردش میں اگر
سنو اہلِ زمانہ ابھی سنبھلنا ہے مجھے
ان غموں کو پَسِ پُشت ڈال کر