Raaz

Ask for More Information

Meet The Author

Raaz

ایک بند کمرا ایک  پنجرہ   کی مانند  جس میں قید شخص کی تمام حسیات آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ کمرے میں کہیں راکھ اور کہیں کوئلے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ انگیٹھی کب سے اس کے پاس تھی اسے یاد بھی نہیں تھا۔ وہ عرصہ ہوا تپش دینا چھوڑ چکی تھی۔دیواروں کا رنگ اتر چکا تھا ۔ اسے یاد کرنے پر بھی یا د نہیں آرہا تھا کہ ان دیواروں کا رنگ کیسا تھا۔ وہ  ناجانے کب سےاس میں موجود  تھا ۔اس میں  بس ایک روشندان تھا  جو بہت اونچا تھا  ۔اس سے آنے والی روشنی سے وقت کا تعین کرتا تھا۔ اس   نے اس سے فرار بھی چاہا تو  ممکن نہیں  ہوا تھا  کیونکہ  روشندان تک پہنچ بھی جاتا تو باہر نکلنا ناممکن ہوجاتا ۔ چاروں طرف سے اس پر پہرا تھا۔
وہ اپنے سینے میں خود سے ذیادہ اہم چیز سموئے ہوئے تھا ۔جس کی حفاظت اسے اگر اپنی جان دے کر بھی کرنا ہوتی تو وہ لمحے کی بھی دیر نا کرتا۔ اپنا آپ تو اس نے اسی دن فراموش کر دیا تھا جب اس نے حلف لیا تھا کہ وہ ہر حال میں اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرے گا۔انگیٹھی میں چلتی آگ اسے باہر لگی ہوئی آگ سے کہیں درجہ بہتر لگ رہی تھی۔اس کی آنکھ میں موجود انگارے کسی بھی کو بھی راکھ کرنے کرنے کیلئے کافی ہوا کرتے تھے۔
٭٭٭٭
اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر دیوار کو ٹٹولنے کی کوشش کی ۔  اپنی جگہ سے ہلا تو اسے معلوم ہو ا اس میں تو ہمت  ہی نہیں رہی ۔ اس نے دھندلی پڑتی آنکھوں سے پاؤں کی طرف دیکھا تو  نظر جمے ہوئے خون کی طرف گئی جو پاؤں کے ناخن کھینچنے اور  مرہم نا ملنے کی وجہ سے جم گیا تھا۔اس نے دائیں ہاتھ سے جمے ہوئے خو ن کو صاف کرنے کی کوشش کی۔
نظر جب ہاتھ پر گئی تو دیکھا کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کٹ چکی تھی۔ جس کو وہ فراموش کر چکا تھا۔  وہ جس  دن سے یہاں موجود تھا اس کو ہزاروں  ذہنی اور جسمانی  تشدد سے دو چار ہونا پڑا  تھا۔ جس کی پروا اس نے کبھی نہیں کی تھی لیکن آج اچانک اسے اپنی بے بسی پہ رونا آرہا تھا ۔ بے رنگ سیال  مادہ اس کی آنکھوں کو جلانے کیلئے تیار تھا۔
زندگی کبھی  بھی اتنی بے رحم نہیں تھی جتنی اسے آج  کل لگ رہی تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو بے ذرر رکھا ۔ یہ پیشہ اس  کیلئے محض پیشہ نہیں تھا۔ جو پیشہ اس نے اپنا لیا تھا وہ اس کی پسند تھی لیکن اس مقام تک آنا اس کی انتھک محنت اور بہترین کاکردگی کی بدولت ہوا تھا۔ اپنی جان سے ذیادہ  اسے یہ وطن عزیز  رہا اور اب وہ   ایک عرصہ سے اس کال کوٹھری میں محض پرانی یادوں کو یاد کرتا اور تصور کی دنیا میں رہ رہا تھا۔
اتنے میں کوٹھری کا دروازہ کھلا۔ آنے والے کےبوٹوں کی دھمک  سے وہ جان چکا تھا اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے ایک لمبی سانس خارج کی اور آنکھیں بند کر لی۔
٭٭٭٭
اس بند کوٹھری سے کہیں میلوں دور اس کی ماں اپنی دعاؤں میں اس کی خیریت مانگ رہی تھی۔ بیوی اپنے پانچ سال کے بیٹے کو لئے بیٹھی تھی اور بچے کو اس کے معصوم سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ دل میں وہ اللہ سے اپنے سہاگ کی بخیرو عافیت واپسی کی دعا مانگ رہی تھی۔بچہ اس کے پاس سے دوڑتا ہوا دادی کے پاس گیا اور  پوچھا۔
دادی جان!بابا کب آئیں گے؟” اس نے دادی کے ہاتھ میں موجود تسبیح سے کھیلتے ہوئے پوچھا۔”
جس کے ننھے سے دماغ میں یہی بات تھی کہ جب وہ سوجاتا ہے تو اس کے بابا گھر آجاتے ہیں اور صبح اس کے اٹھنے سے پہلےواپس  چلے جاتے ہیں ۔
دادی نے اس معصوم سے فرشتہ کو دیکھا ۔جس کے ہاتھ میں اب ان کی تسبیح تھی۔انہوں نے ان ہاتھوں کو پکڑا اور چومنے لگیں ۔ انہیں یہ ہاتھ ہمیشہ سے اپنے بیٹے جیسے لگتے تھے۔ اس کی انگلیاں بالکل اپنے  والد جیسی تھیں۔ اس کا وجود دادی کو اپنے بیٹے کی یاد  شدت سے دلواتا تھا۔بچہ وہیں دادی کی گود میں سر رکھے سو گیا۔ وہ اس کے بال سہلاتے ہوئےوہ  اس سے ذیادہ خود کو تسلی دے رہیں تھیں ۔
تمہارے بابا آجائیں گے۔ ضرور آئیں گے” انہوں نے اپنی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو اپنے پلوں میں جزب کرتے ہوئے کہا۔
اتنے میں باہردروازے کی گھنٹی بجی۔ گھنٹی پر ان کا دل ہمیشہ دہل کر رہ جاتا تھا۔انہوں نے اپنی بہو کی طرف دیکھا جوانہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ نظروں کے تبادلے کے بعد وہ اٹھی اور دروازے کی جانب چل دی۔
افسانہ نگار
بنتِ علوی

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Raaz”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?