Kaash Koi Khizar Hota

یہ کہانی ہمارے معاشرے میں جنم لیتی بے حسی اور کچھ غیر انسانی رویوں پہ روشنی ڈالتی ہے، بد قسمتی سے بے حسی نے ان خوبصورت رشتوں کو بھی آلودہ کر دیا ہے، جو ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں۔ یہ کہانی باپ اور بیٹے کے رشتے کو ایک منفرد انداز میں آپ کے سامنے پیش کر نے جارہی ہے۔
Ask for More Information

Meet The Author

Kaash Koi Khizar Hota written by Mahnoor Rasheed

یہ کہانی ہمارے معاشرے میں جنم لیتی بے حسی اور کچھ غیر انسانی رویوں پہ روشنی ڈالتی ہے، بد قسمتی سے بے حسی نے ان خوبصورت رشتوں کو بھی آلودہ کر دیا ہے، جو ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں۔ یہ کہانی باپ اور بیٹے کے رشتے کو ایک منفرد انداز میں آپ کے سامنے پیش کر نے جارہی ہے۔

Mahnoor Rasheed is a Social Media writer and now her Story(s) are being written with Novels Hub. Novels Hub is a new platform for new or well known Urdu writers to show their abilities in different genre of Urdu Adab.

Regards

Novels Hub

Kaash Koi Khizar Hota Downloading Link

کاش کو ئی خضرؑ ہوتا
وہ اایک خستہ حال سے کمرے میں لیٹا تھا، کمرے کی حالت اور اس بوڑھےکی حالت   یکساں تھی۔ اس کمرے کے دوسری جانب سامان پڑا تھا، اور اس کی چار پائی اس  کمرے میں   بکھرے سامان کے  درمیان پڑی  تھی ، پچھلے دوسالوں سے  اس گہری تنہائی کے علاوہ یہ بکھرا سامان ہی اس کا ساتھی تھا۔
 وہ اپنے گھر سے سارا سامان اٹھا لا یا تھا، اس سامان سے اس کی ساری یادیں منسلک تھیں، وہ اکثر  اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس سامان میں جانے والوں کے لمس کو تلاش کر نے کی کوشش کر تا۔
دیکھنےمیں یہ کمرہ ایک سٹور روم لگتا تھا۔ دیواروں پہ موجود  سیم سے سارے کمرے میں ایک عجیب سی بو پھیلی تھی، چارپائی کے پاس پڑے ایک میز پہ ایک سوکھی روٹی اور دال پڑی تھی، آج بھی اس  نے کھا نا نہیں کھا یا تھا۔ وہ چھت کو گھور رہا تھا، جہاں موجود پنکھا ہوا کو کمرے کے چاروں جانب منتقل کر نے میں ناکام تھا۔
’’آہ کاش کوئی خضر ہوتا ،کاش کوئی خضر ہوتا۔‘‘     اور اسی کے ساتھ اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ اس کے گالوں پہ پڑی جھری زدہ جلد میں پیوست ہو گیا تھا۔
اس کی یہ بوڑھی آنکھیں اب روز ہی کسی ٹوٹی شاخ کی مانند دوبارہ سے اپنی اس جڑ سے منسلک ہو نے کے خواب دیکھتی تھیں، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اب یہ ممکن نہیں
اس کی آنکھیں اب خوفزدہ سی رہتی تھیں۔یوں تو اس کی عمرساٹھ برس تھی، مگر اس کی یہ حالت دیکھ کر لگتا کہ جیسے وہ ہزاروںصدیاں جی آیا تھا۔
وہ اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا، مگر  اب بھی ماضی کی وہ تلخ یادیں تازہ تھیں۔ وہ یادیں روز رات کو اس کے بو سیدہ اور خزاں رسید  ہ وجودمیں نمو دار   ہو تیں،  ان یادوں کے مزید نئے کانٹے دار پودے اگتے اور اس کے وجود کو چھلی کرجاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کل ہی بات تھی، جوا نی  نے اس کی چوکھٹ پہ قدم رکھا تھا۔ آنکھوں میں ایک چمک تھی، سیاہ ریشمی بال اس کے ماتھے پہ پڑتے تو جب ہاتھ ان کو پیچھے لے جانے کے لیے اٹھتا تو نہ جانا کتنے ہی دلوں کی دھڑکنیں رک جا تیں ۔ اس کی سفید و سرخ رنگت دھوپ میں مزید چمک نے لگتی، جیسے سفید موتیے کے پھول  کی چمک سورج کی روشنی میں مزید گہری ہوجا تی ہے۔ وہ اپنی  بیوی بچے  کے ہمراہ پہاڑوں کی اس حسین وادی میں کھڑا تھا، اس کے لیے یہ نظارہ نہایت ہی دلفریب تھا، وہ اس کے سحر میں ڈو ب چکا تھا،
وہ ان وادیوں کے دامن میں کھڑا اپنی گود میں ایک حسین و خوبصورت بچے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
اس بچے کی ماں سفید  لباس میں ملبوس ،نرم و ملائم گھاس پہ چادر بچھائے بیٹھی  تھی، اس سفید لباس کی چمک اس کے چہرے کو مزید پر کشش بنا رہی تھی۔ وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی، جیسے اپنی آنکھوں کی تشنگی کو ان کی صورت کو دیکھ کر دور کر رہی ہو۔
بلاشبہ اس بچے نے یہ حسین  وجوداپنی ماں اور باپ دونوں سے مستعار لیا تھا۔
اس وادی کے عین درمیان میں ایک شور مچاتا ہوا دریا گزر  رہا تھا، اس دریا کو دیکھ
 کر  دودھ کی کسی نہر کا سا گمان ہو تا تھا۔ اس دریا کا شور مچا تا ہوا پانی اس خاموش  سی وادی میں ایک عجیب سی ہلچل مچا رہا تھا، اس پر امن وادی کی خاموشی کو عجیب سی سنسنا ہٹ میں گرفتار کر رہا تھا۔ جیسے یہ وادی بھی اس کے اس شور سے بے چین سی ہو،
وہ تقریبا نوسالہ بچے کو دریا کے کنارے کھڑا کیے اس کی تصویر لے رہا تھا۔ اس دریا کے کنارے بہت سے پتھر پڑے تھے،ان پتھروں پہ پھسلن تھی، بچےابھی ایک قدم پیچھے کو ہوا تھا کہ اچانک اس کا پیر پھسلا اور  دریا کے اس شور میں اس کی چیخیں دب گئیں،اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا لخت جگر یوں دریا کے سپرد ہو گیا تھا، آج محسوس ہوا تھا کہ یعقوب ؑ کی آنکھوں کی روشنی بلاوجہ نہیں گئی تھی، آج ان کی کیفیت کو وہ محسوس کر رہا تھا۔
 جیسے اس کے جسم سے خون نکل گیا ہو، اسے ایسا محسوس ہوا کہ اچانک سے کسی نے اس کے جگر کو اس کے جسم سے الگ کر دیا ہو۔ ، اسے اپنی  روح نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی، اور پیچھے اس کا ایک بے جان اور ایک خالی وجود چھوڑ گئی تھی۔ اس نے فورا اس بچے کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ وہ دونوں دریا کی سمت میں بہہ رہے تھے، اسی لیے اسے تیرے نے میں اتنی مشکل نہیں ہوئی تھی،  وہ تیزی سے دوسری جانب بہتا ہی چلا جا رہا تھا۔اسے اپنا وہ جگر گو شہ نظر آیا تھا، وہ بچہ دریا کے درمیان پڑے بڑے سے پتھر کے ساتھ لگیں جھاڑیوں کو مضبوطی سے تھامے اپنے باپ کو پکار رہا تھا۔
وہ چلا رہا تھا، دریا کے درمیان پڑے اس بڑے سے پتھر کے ساتھ وہ اٹک چکا تھا۔بچے کو دریا کے ساتھ دیکھ کر اس کے وجود کو جیسے تسکین ملی تھی۔
اس بچے کا باپ   تیزی سے اسی بہائو میں بہہ رہا تھا۔ جب اس نے اس بڑے سے پتھر کے ساتھ موجود لمبی جھاڑیوں کو مضبوطی سے تھام لیا ، یہ جھاڑیاں کانٹے دار تھیں، اس کے مضبوط ہاتھ زخمی ہو گئے تھے، ان سے خون رسنے لگا تھا۔
اس کے باوجود  انہیں مضبوطی سے تھام کر، اس  جوان آدمی نے اپنے جسم کا پورا زور اپنے ان بازوئوں میں منتقل کر دیا تھا، اور اپنے جگر گوشے کو پتھر کے عین اوپر بٹھا یا تھا، اور خود بھی  اس کے ساتھ اس پتھر پہ جا بیٹھا تھا۔ دریا کا پانی اس پتھر سے ٹکرا کر دو حصوں میں بٹ رہا تھا۔ اس نے اس چھوٹے سے وجود کو جی بھر کر جی سے لگا یا تھا، جیسے روح دوبارہ اس کے جسم میں منتقل کر دی گئی ہو۔آس پاس کے مقامی افراد نے ان کا گھیرا ئو ںکر لیا تھا، اور اپنی مدد آپ کے تحت ان کو اس دریا کے درمیان سے با ہرنکا لاتھا۔۔ کچھ لمحے قبل وہ ان پتھروں کو برا بھلا بول رہا تھا، جن کے سبب اس کا بیٹا پھسل کر پانی میں گرا تھا۔
کچھ ہی دیر بعدایک بڑا پتھر  اس کے بچے کی نجات کا سبب بنا تھا۔ بلاشبہ اس دنیا میں اللہ نے کوئی بھی شے بے سبب نہیں بنائی۔ مقامی لوگوں کی مدد سے وہ اس دریا سے نکل چکا تھا، یہ خوشی اس کے لیے دیدنی تھی، وہ بچےکو گود میں اٹھائے ، اس  کی ماں کی جانب بڑھا ہی تھا کہ ایک اور دل سوز واقعہ اس کا منتظر تھا۔ زندگی نے جیسے اسے بارٹر سسٹم کے تحت اس کا بیٹا واپس دلا یا تھا۔ وہاں اس بچے کی ماں مردہ حالت میں پڑی تھی۔ کچھ علاقائی عورتوں نے اس کا گھیرا ئوں کر رکھا تھا۔
وہ ان دونوں کو دریا میں گر تا دیکھ کر  وہی گر گئی ،اسے سفید پوشاک والی کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے سینے میں ایک تیز آلے سے وار کیا ہو، وہ اپنی آخری منزل پہ  گامزن ہو چکی تھی۔
وہ حسین سراپے والا شخص   وہی گر گیا تھا، اس کی چیخیں فضا میں بلند ہوئیں تھیں۔ اس کی چیخ اس وادی میں گونج  رہی تھی۔ فضا  میں موجود پرندوں کی آوازیں بھی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جا رہی تھیں۔  جیسے وہ قدرت سے جھگڑا کر رہیں ہوں، کہ آخر وہ اس قدر  ظالم و سفاک کیو ں کر ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باغ میں بیٹھا چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ہوئے تھا۔ اس واقع کی وہ تلخ یادیں آج بھی کسی خوفناک بھوت کی طر ح اس کے دروازے پہ دستک دیتی تھیں۔ اور اس کا خوف کے سبب سو نا محال  تھا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبا تھا ، جب اچانک سے چائے کا گرم قطرہ اس کے ہاتھ پہ گرا تھا۔ اس نے لرز تے ہوئے ہاتھوں سے چائے میز پہ رکھ دی تھی۔ وقت گزر نے کے ساتھ ہی اس کے ہاتھوں میں رعشہ آ گیا تھا۔  وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
کہ اس بڑھاپے نے یا پھر اس تلخ ماضی نے اس کے وجود کو زنگ آلود سا کر دیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک نوجوان  کچھ فائیلز پکڑے گھر میں داخل ہوا تھا۔
وہ سلام کیےبغیرہی  سیدھے اندر داخل ہو گیا تھا،اس نوجوان مرد کی جوانی کسی چودھویں کے چاند کی مانند تھی۔ جس کی روشنی آس پاس کے سبھی ستاروں پہ غالب ہوتی ہے۔مگر یہ بوڑھا آدمی اس چاند کی روشنی سے محروم تھا۔
 اس نے آنکھ اٹھا کر اس بوڑھے وجود کی جانب نہیں دیکھا تھا۔ ان بوڑھی آنکھوں میں اس نوجوان کے آنے سے جو چمک ابھری تھی، وہ اب ایک سیاہ اندھیری رات کے سائے میں بدل گئی تھی، جس میں روشنی بس اس نوجوان کا جلایا گیا دیا ہی کر سکتا تھا،
چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ یہ بوڑھی آنکھیں دھندلاگئی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ نوجوان مرد اپنی گود میں ایک بچہ اٹھائے اس کے سامنے آیا تھا، ایک عورت اس مرد کے پیچھے چل رہی تھی۔اچھا بابا میں اور نمرہ باہر جا رہے ہیں۔ رات تک آجائیں گے۔ کھانا بنا پڑا ہے، آپ کھا لیجئے گا۔ اس کا چاند جا چکا تھا،  یہ سیاہ آنکھوں  اب مزید سیاہ ہو چکیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا جانے کیوں ان باپ بیٹے میں یوں ایک دیوار سی آگئی تھی۔اس بوڑھے نے تو کبھی اسے یوں نظر انداز نہیں کیا تھا، ماں کے بغیر پالا تھا ،تو وہ کیوں اس قدر اس سے بے زار سا رہنے لگا تھا۔
ان بوڑھی آنکھوں میں ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ اس گھر میں صرف دو ہی کمرے تھے،
یہ گھر ایک خوبصورت سے چھوٹے سے باغ سے منسلک تھا،وہ اپنے کمرے میں بیٹھا کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا، جب اچانک سے وہ خوبصورت نوجوان کمرے میں داخل ہوا تھا، ان  بوڑھی آنکھوں میں پھر سے وہی چمک نمودار ہونے لگی تھی ،جیسے کسی اندھیری وادی میں سورج کی ایک کرن جل ترنگ بکھیر د ے۔ اس بوڑھے چہرے پہ ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ ’’ارے  مراد تم آئوبیٹھو۔‘‘   وہ نوجوان ان کے ہمراہ بیٹھ گیا ۔
’’وہ ابا جی آپ سے ایک ضروری بات کہنی ہے۔ وہ جھجکتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا تھا۔ ابا جی وہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا گھر کتنا چھوٹا ہے، اور ایسے میں یہاں رہنا تھوڑا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔
تو میں نے یہ گھر بیچنے کا فیصلہ کیا ہے،‘‘  وہ بوڑھا ایک گہری سوچ میں پڑ گیا تھا۔’’ پر بیٹا یہاں تمہاری ماں کی یادیں ہیں کیسے چھوڑ دوں۔‘‘   مراد کے تاثرات سخت گیر تھے۔
’’ پر ابا جی بات کوسمجھے نمرہ کے گھر والوں نے گھر آنا ہے ، تو  ہم انہیں کہاں ٹھہرائے ۔ ایسے میں پھر آپ کو اپنا کمرہ خالی کرنا ہو گا۔ دیکھے میں اسے ناراض نہیں کر سکتا ۔ بات کو سمجھے ۔‘‘
 وہ وہاں سے اٹھ کر جا چکا تھا۔یہ جانے بغیر کے وہ اپنے پیچھے کیا غضب ڈھا کر گیا ہے۔
وہ کتاب ان بوڑھے ہاتھوں سے زمین پہ ڈھے گئی تھی، یہ چھوٹی سی کتاب نہ جانےکیوں اچانک اسے بہت وزنی محسوس ہونے لگی تھی۔
ایک دن وہ بوڑھا شخص  اپنے اس چھوٹے سے باغ کی چھائو ں میں چہل قدمی کر رہا تھا، اس باغ میں ایک بڑا درخت لگا تھا۔ وہ اس درخت کے سائے میں کھڑا تھا، بلاشبہ قدرت کسی سے یوں دغا نہیں کرتی، بلاشبہ یہ انسان کو ایک گہرااور گھنا سایہ فراہم کر تی ہے۔ انسان تو کبھی کسی کو گھنا سایہ فراہم کر نے کی بجائے ، ایک پلایا گیا پانی کا گلاس بھی صدیوں یاد دلا تا رہتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ہاتھ میں پھول لیے اپنی ہی گہری سوچ میں مگن تھا، جب اچانک سے کسی کی آواز اس کی کانوں میں آئی تھی، مراد کے کمرے کی کھڑکی باغ سے منسلک تھی، وہاں سے ایک آواز نے اس بڑ ھے کے قدم منجمند کر دیے تھے۔’’ ارے بے وقوف انسان میں نے بکواس نہیں کی تھی۔ ارے وہ اکبر  اگر جگہ خالی نہیں کرتا ،تو چار آدمی لے جا کر اسے باہر نکال ،قبضہ ما فیا سے رابطہ کر۔ اگر پھر بھی نہ مانے تو اسے مار دے ۔ بس میں نے اس مصیبت کو بہت برداشت کر لیا ۔ ‘‘ مراد کسی کو فون پہ جان سے  مارنے کا حکم صادر کر رہا تھا۔
وہ پھول ان  ہاتھوں سے نکل کر زمین پہ جا گرا تھا۔ اس بوڑھے آدمی کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، وہ لر ز رہا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے ایک دیوار کا سہارا لیا تھا۔ اسے اپنی سماعتوں پہ اعتبار نہیں آیا تھا،  اسے وہ بچہ   یا د آیا تھا، جو راتوں کو اس کی آغوش میں سوتا تھا، وہ اپنے چہرے پہ معصومیت لیے اس کی گود میں لیٹا تھا۔ ’’بابا اگر میری جگہ کوئی اور بچہ ہوتا تو کیا آپ پھر بھی اسے بچا لیتے۔‘‘ وہ اکثر اس سے ایک ہی سوال بار بار پوچھتا۔
’’ہاں میری جان کیونکہ ایک انسان کی جان بچا نا پوری انسانیت کی جان بچا نے کے مترادف ہے۔‘‘
’’ایسے کیسے وہ میری تربیت کو فراموش کر سکتا ہے؟  میں نے تو کبھی اس کی ایسی تربیت نہیں کی۔‘‘  وہ بوڑھی آنکھیں سرخ ہو چکیں تھیں۔
۔ اگلے دن اس بوڑھے نے گھر فروخت کرنے کی خامی بڑھ لی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں گھر بک چکا تھا۔
اس صبح سورج بادلوں کی چادر تلے چھپا بیٹھا تھا، یہ گھر اندھیری صبح کے سائے میں لپٹا  کھڑا تھا۔  لڑکھڑا تے ہوئے وہ اپنی نظر کا چشمہ لگائے وہ باہر کی جانب بڑھا تھا، آج گھر میں معمول سے ذیادہ خاموشی تھی،
وہ ایک آخری نگاہ اس گھر پہ ڈالے اس کی ہر ایک چیز کو چھو کر دیکھ رہا تھا ، جیسے اس میں مرنے والی کا لمس تلاش کر رہا ہو۔اسی دوران  اسے ایک لفا فہ ملا تھا۔
وہ لفا فہ اس کے ہاتھوں میں کانپ رہا تھا، جوں جوں اس نے اس لفا فے کو پڑھنا شروع کیا تھا، توں توں اسے اپنے  دل پہ بوجھ محسوس   ہوا تھا،
’’ابا جان اس گھر کی قیمت زیادہ نہیں لگ سکی۔ اسی لیے نیا گھر خر یدنے کے لیے بہت کم پیسے تھے، مجھےایک چھوٹا گھر ہی  مل سکا، مگر بد قسمتی سے اس میں آپ کے لیے جگہ نہیں ہو پائے گی۔ پر میں آپ کا حصہ آپ کو دے رہا ہوں، اور میرادوست
ایک فلاحی ادارہ چلا تا ہے،  آپ برائے مہر بانی اس کے پاس چلے جائیں گا۔وہاں آپ جیسے دوسرے بھی ہوں گے، آپ کا دل لگا رہے گا۔میں آپ سے ملنے آتا رہوں گا۔ ‘‘   وہ خط پڑھتے ہوئے ، رونے لگا تھا اس کی چیخیں پھر سے اس گھر میں گونجیں تھیں، جیسے ماضی میں اس وادی میں گونجیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس اولڈ ہوم کی دیواروں سے افسردہ سی آواز میں ہم کلام تھا ، آہ کاش کوئی خضر ہو تا۔ وہ اولاد جس کو میں نےجان پہ کھیل کر بچا یا، وہ ماں جو اپنی لخت جگر  کو یوںپانی میں گرتا دیکھ کر رخصت ہوگئی ۔ کاش کوئی خضرمیری  ا س اولاد کو بھی اس صفحہ ہستی سے مٹا دیتا، اور اس کے بدلے مجھے نیک و صالح اولاد ملتی۔ آہ کاش کوئی خضر ہوتا۔کاش میں نے اس دن اسے نہ بچا یا ہوتا، کاش

2 reviews for Kaash Koi Khizar Hota

  1. komal

    kya khoob likhti hain ap dil chahta hai ap k hath chum lu maam 😊

  2. Iqra

    You wrote Outstanding stories ❤ full of emotions that develop our interest till the end. 💫

    • Mahnoor Rasheed

      Thank you, Iqra.

Add a review

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?