Afsanay

Soch

آنگن مہندی اور ہلدی کی خوشبو سے مہک رہا تھا، ماحول میں چوڑیوں کی کھنک اور ہنسنے کی آوازوں نے ایک الگ ہی سحر پھونکا ہوا تھا ، ہر جگہ گلاب کی پتیوں کی مانند بکھری ہوئی تھیں کنواری لڑکیاں اور سہاگنیں ۔
سائڈ میں بیٹھی بزرگ عورتیں دے رہیں تھیں اس ہلدی اور گلاب کی مہک سے سجی ہوئی دولہن کو دعائیں۔
میں اپنی دوست کو دلہن بنے دیکھ کر دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کب میں عمر کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں میں لگاؤں گی ؟ اتنے میں مجھے امی نے پکارا ۔۔
” آرزو اپنی دوست کو ہلدی نہیں لگاؤں گی ؟
” میں فورا اپنی جگہ سے اٹھی اور ماہین کے پہلوں میں جاکر بیٹھ گئی اور پھر دونوں ہاتھوں میں ہلدی بھر کر خوب ماہیں کے چہرے پر ملی ۔۔ سب وہاں آرے آرے کہتے رہ گئے اور ہم ساری دوستیں ہنستی ہنستی ۔۔۔
” اتنے میں آسمانی کپڑوں میں ملبوس ایک عورت مسکراتی ہوئی ماہین کو ہلدی اور باقی رسم کرنے کے لیے آ رہی تھیں ، انہیں آتا دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھی تو ماہیں کی ماما نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے واپس بیٹھا دیا اور اس عورت کو ایک منٹ کا کہہ کر وہاں موجود بزرگ عورتوں کے پاس چلی گئیں۔
 سب وہاں کبھی اس عورت کو دیکھتے یا ماہین کی مما کو ۔
” جب بات ختم ہوئی تو ایک بی بی اس آسمانی کپڑوں والی عورت سے بولیں ۔۔
” تم بیوہ ہونا ! ماحول میں ہلچل ایک منٹ کے لیے تھمی ۔
” اس عورت نے ان بزرگوں کا اشارہ سمجھتے ہی ایک پھیکی اور درد بھری مسکراہٹ لیے سر اثبات میں ہلایا اور واپس جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی ۔
” تھمی ہوئی ہلچل پھر سے ہونے لگی ۔ میری نظریں بھٹک بھٹک کر اس عورت پر جا رہی تھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس محفل سے چلی جائے کیونکہ اس کی موجودگی یہاں کسی کے لیے بھی اہم نہیں تھی۔
آرزو۔۔۔ آرزو کہاں کھوئی ہوئی ہو ؟ چلو ڈانس کرتے ہیں، میں نے گہری سانس لی اور اپنے آپ کو ڈانس کے لئے تیار کیا اور ڈانس کرنے کے لیے فلور پر چڑھ گئی ۔
 کچھ دیر بعد وہ عورت اور لمحہ میرے ذہن سے نکل چکا تھا لیکن میری زندگی میرے لیے جو لمحے طے کر رہی تھی وہ اس عورت سے کافی مشابہت رکھتے تھے ۔
گھر میں صبح سے کھسرپھسر ہو رہی تھی میں اس خبر کھسر پھسر سے انجان تھی اور جب مجھے اس کھسر پھسر کے بارے میں معلوم ہوا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔
کیا عمر تم کراچی آ رہے ہو ۔
ہاں ہاں بھئ صحیح سنا تم نے میں کراچی آرہا ہوں۔
تمہیں پتا ہے میں بہت خوش ہوں عمر۔
عمر نے آنکھیں بند کیں اور ٹھنڈی ہوا اندر کھینچتے ہوئے کہا ۔ خوش تو ہونا ہی چاہیے کیونکہ نکاح کے رشتے میں جو جڑنا ہے ہمیں عمر کی بات پر آرزو کی دھڑکنیں تیز ہوئیں ۔ عمر نے جب خاموشی محسوس کی تو کہا۔
کہاں کھو گئیں آرزوں میڈم؟.
کہیں نہیں بس اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ اس نے میرے نصیب میں تمہیں لکھا۔
یہ تو ہے پر اللہ کے ساتھ گھر والوں کا بھی شکر ادا کر لینا آخر ملوایا تو انہوں نے ہی ہے۔ عمر نے ہنستے ہوئے کہا ۔
جی جی بالکل ویسے عمر تم کب آرہے ہو ؟
اگلے مہینے انشاءاللہ۔۔
اگلے مہینے کا بے صبری سے انتظار تھا مجھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی آگیا آج نکاح کا دن تھا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا رونق اور مستیاں اپنے عروج پر تھیں۔
 آج میں کسی اور کے نام ہونے جا رہی تھی ایک الگ ہی احساس تھا ۔ میری امی اور عمر کی ماما میرے دائیں بائیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ سامنے مولوی صاحب کے ساتھ میرے بابا بیٹھے ہوئے تھے بابا کو دیکھ کر مجھے کل رات کا وہ لمحہ یاد آیا جب میں بابا کے سینے سے لگے ان سے باتیں کر رہی تھی ۔
بابا آپ مجھے کیوں کسی اور کے حوالے کر رہے ہیں؟
بیٹا یہ تو ہر ماں باپ پر فرض ہے نا۔
بابا آپ کو میری یاد نہیں آئی گی؟
کیوں نہیں آئے گی بھلا ماں باپ کیا کبھی اپنے بچوں کو بھولتے بھی ہیں ۔
بابا پھر جب آپ آفس سے آئیں گے تو آپ کو پانی کون لا کر دے گا اور جب آپ کے سر میں درد ہو گا تو آپ کا سر کون دبائے گا میں تو آپ سے دور ہوگی نا۔
بابا نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور میرے ماتھے پر بوسہ دیا بیٹا جب آپ پیدا نہیں ہوئی تھیں تو یہ سارے کام آپ کی امی کرتی تھیں تو اب بھی وہی کریں گی ۔۔
بابا اگر مجھے وہاں ڈر لگا تو ؟.چہرے پر ڈر اور خوف کے آثار لیے بھیگی آنکھوں سے میں نے اپنے بابا کو دیکھا۔
اگر آپ کو ڈر لگے تو بابا کو ایک کال کرنا بابا آپ کو لینے آ جائیں گے ۔
بیٹا سائن کرو امی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے بھیگی آنکھوں سے جالی دار ڈوپٹے کے اس پار اپنے بابا کو دیکھا جو آنسو ضبط کیے بیٹھے تھے ۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر سائن کیے تھے ۔ اب میں آرزو ابراہیم سے آرزو عمر بن گئی تھی ۔
شادی کے ایک سال بعد اللہ نے مجھے جڑواں بچوں سے نوازا تھا ایک بیٹا جس کا نام ہم نے عارب رکھا تھا اور ایک بیٹی جس کا نام مشک رکھا تھا ، ساتھ میری جیٹھانی کو بھی اللہ نے بیٹی سے نوازا تھا جس کا نام نور رکھا تھا جب اللہ نے ہمیں ماں باپ جیسا اتنا اہم عہدہ دیا تو ہماری توجہ اور ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی تھیں۔
زندگی خوش سے خوشحال ہو گئی تھی میں اور میری جیٹھانی لان میں بیٹھے اپنے پانچ سالہ بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔ اتنے میں میری جیٹھانی نے مجھ سے کہا۔
” آرزو ایک بات ہے جو میں تم سے روز کرنے کا سوچتی ہوں پر کر نہیں پاتی ، پر آب دل کہہ رہا ہے کہ تم سے وہ بات کہہ دوں ” مجھے ان کی بات سے تجسس ہوا اور میں نے کہا ” جی بھابھی بولیں ” انہوں نے میرے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر کہنے لگیں ” میں نور کے لئے عارب کو چاہتی ہوں میں عارب کو مستقبل میں اپنے گھر کا داماد بنانا چاہتی ہوں ” یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئیں ۔
بھابھی آپ نے تو میری منہ کی بات چھین لی میں کل ہی عمر سے اس بارے میں بات کر رہی تھی میں نے چہکتے ہوئے ان سے کہا تو وہ میری بات سن کر محفوظ ہوئیں ۔
دن گزرتے رہے ، وقت گزرتا رہا ، ہر دن میرا ایک خوشگوار دن ہوتا تھا اچھا سسرال ، اچھا شوہر ، بچے بس ان سب میں ہی میری زندگی پرسکون گزر رہی تھی ۔ لیکن زندگی کب تک کسی کو خوش دیکھ سکتی تھی زندگی نے مجھے ہر خوشی دکھائی پر آپ میرے زوال دیکھنے کے دن شروع ہو گئے تھے ۔ میں کچن میں سے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی تبھی پی ٹی سی ایل پر فون آنے لگا میں نے فون اٹھایا ۔
ہیلو ۔۔
ہیلو مسٹر عمر کی فیملی سے بات کر رہا ہوں ؟
جی میں ان کے وائف بول رہی ہوں ۔۔
اوکے میم آپ کے ہسبنڈ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے آپ جلدی سے شفا ہسپتال آجائیں ۔
کیا ۔۔۔ پاپا ، امی ، بھابھی ، سب اپنے اپنے کمروں سے نکل کر آئے ۔۔پاپا عمر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ ۔۔۔ وہ شفا ہسپتال میں ہیں۔
میری رو رو کر حالت بری ہو چکی تھی ڈاکٹر آئی سی یو وارڈ سے نکل کر آئے ۔
آئی ایم سوری ۔۔۔ ہم انہیں نہیں بچا سکے ۔
مجھے لگا تھا کہ میں نے کچھ غلط سنا ، پاپا ، امی
زار و قطار رونا شروع ہوگئے تھے مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہوا تھا۔ نہیں ۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا اور جو اٹال سکتا تھا اس کی اسی میں رضا تھی ۔ اور جو اس کی رضا تھی مجھے وہ قبول تھی ۔
آج عمر کو گئے ہوئے تیئیس سال ہو چکے تھے اور ان تیئیس سالوں میں ، میں نے جو دیکھا ، جو سیکھا ، جو سہا ان سب سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس معاشرے میں بیوہ ہونا کسی گناہ سے کم نہیں ہے ۔ بیوہ ہونا ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بیماری ہو ۔ کسی خوشی میں شریک نہ ہو، کوئی رسم نا کرو یہ سب جب میرے ساتھ ہوا تو مجھے وہ عورت یاد آئی جسے میں نے ماہین کی شادی میں دیکھا تھا اس کا درد اس کی پھیکی مسکراہٹ مجھے اب محسوس ہوتی تھی۔
عارب اور نور کی شادی کو بھی ایک سال ہو چکا تھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش تھے اور اب ہم مشک کی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے دو مہینوں بعد شادی کی تاریخ رکھ دی تھی ۔ لیکن اللّٰہ کو کچھ اور ہی منظور تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں اپنے شوہر کے بعد اپنے بیٹے کو بھی کھونے والی تھی ۔ وہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا جب میرا جوان بیٹا میرے سامنے کفن لپیٹے نیند کی آغوش میں تھا ۔ میں نے بھیگی نظروں سے اوپر دیکھا اور کہا ” اگر تیری اسی میں رضا ہے تو مجھے قبول ہے ” پتا نہیں میرا اللّٰہ مجھ سے کیا کام لینا چاہتا تھا ۔
مشک کی شادی کی تاریخ آگے بڑھا دی تھی گھر میں عجیب سی وحشت اور اداسی پھیلی ہوئی تھی لیکن جلد ہی گھر پھر سے جگمگانے لگا آج مشک کی مایوں تھی وہی مستی ، مذاق ، ہنگامہ ماحول میں رقص کر رہا تھا ۔ ہر چہرے پر خوشی تھی لیکن ایک وجود کونے میں بیٹھ کر ان خوشیوں کو صرف محسوس کر رہا تھا جی نہیں رہا تھا ۔ میں نے نور کے بےرونق اور غمگین چہرے کو دیکھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے بیتے ہوئے دن یاد کر رہی تھی ۔ رسمیں ادا ہونے لگی ساری سہاگنیں اور کنواری لڑکیاں مشک کو ہلدی اور مہندی لگانے لگی میں نے نور کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اسے بھی رسم کرنے کا کہا وہاں موجود سب بڑی بی بیاں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگیں۔
یہ کیا کر رہی ہو تم آرزو بیٹا نور سے رسم کیوں کروا رہی ہو؟ نور کی مسکراہٹ پھیکی پڑی اور اس نے مجھے دیکھا۔
میں نے گہری سانس لی اور وہاں موجود بڑی بی بیوں سے مخاطب ہوئی ۔۔
کیوں نور رسم کیوں نہیں کر سکتی ؟ میں نے انجان بن کر پوچھا کہیونکہ میں چاہتی تھی کہ وہ اپنے منہ سے خود بولیں ۔۔
کیوں کا کیا مطلب ہے تمہیں پتا نہیں ہے کہ بیوہ عورتیں کوئی رسم نہیں کر سکتیں ۔
نہیں مجھے نہیں پتا آپ بتائیں بیوہ عورتیں کوئی رسم کیوں نہیں کر سکتیں؟
ارے۔۔۔۔ کہنے کے بعد وہ سب عورتیں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
دیکھو بیٹا یہ خوشی کا موقع ہے سب سہاگنیں موجود تو ہے یہاں ان سے رسم کراؤ ایک بیوہ سے رسم کروا کر تم اپنی ہی بیٹی کی زندگی اور خوشیاں تباہ کر دوں گی ۔
پہلے بات جو بیوہ ہے وہ بھی میری بیٹی ہی ہے اور دوسری بات چلیں ٹھیک ہے میں نہیں کرواتی نور سے کوئی رسم تو کیا مشک کی زندگی میں آنے والی خوشیوں کی گرنٹی آپ مجھے دے سکتی ہیں ؟ اس کی زندگی میں کوئی دکھ ، درد ، تکلیف نہیں آئے گی اس کی گرنٹی دے سکتی ہے مجھے اگر گرنٹی دے سکتی ہیں تو میں نور سے رسم نہیں کرواؤں گی ۔ ماحول میں ایک دم سناٹا چھا گیا تھا کسی کی نہ ہسنے کی آواز آرہی تھی نہ چوڑیوں کی کھنک کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
دیکھو بیٹا ہم تم سے عمر میں بھی بڑے ہیں اور تجربہ بھی تم سے زیادہ ہے اور۔۔۔
یہ تو اللہ کے فیصلے ہیں نا ۔۔ میں نے ان کی بات کاٹ دی تھی ، اللہ جس کو چاہے سہاگن رکھے ، اللہ جس کو چاہے بیوہ کر دے ، اللہ جس کو چاہے تکلیف دے ، اللہ جس کو چاہے خوشیاں دے ، اللہ جس کو چاہے لمبی زندگی عطا کرے ، اللہ جس کو چاہے دو پل میں ہی واپس بلالے۔
یہ سب تو اللہ کے فیصلے ہیں نا تو ہم کیوں اللہ کے فیصلوں کو ترک کرتے ہیں ؟ اللہ کے فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ناقدری کرتے ہیں ؟
ان میں سے ایک بی بی فوراً بولیں۔۔ استغفراللہ یہ تم کیا بول رہی ہو بیٹا ہم نے اللہ کے فیصلوں کی کب ناقدری کی ہے ؟
نور کا بیوہ ہونا یہ نور کی مرضی نہیں تھی یہ اللہ کا فیصلہ تھا تو کیا آپ نے اللہ کے فیصلے کی توہین نہیں کی۔
بیٹا ہم نے ایسا بھی کیا بول دیا ہے ہم تو صرف رسم کرنے سے منع کر رہے تھے ۔
کیوں رسم کرنے سے منع کر رہے تھے ۔۔ میں نے ہر لفظ پر زور دے کر کہا ہم بیوہ ہیں بڑی دادی ڈائن نہیں آپ بھی تو بیوائیں ہیں تو کیا آپ نے اپنی بیٹیوں کی رسم نہیں کی تھی ؟ اچانک وہ سب عورتیں بھوکھلا گئیں۔
پر بیٹا ہم تو مائیں ہیں نا۔۔۔
میں ان کی بات پر ہنسی ! تو کیا ہوا رسم کرتے وقت تو آپ بیوہ ہی کہلائیں گی ۔۔
“کسی نے کچھ نہیں کہا “
مجھے ایک بات بتائیں آپ کے رسم کرنے سے آپ کی بیٹیوں کی زندگی میں کوئی فرق آیا ؟ آپ کی بیٹیوں کی زندگی تباہ ہوگئی ؟ نہیں نہ ماشاءاللہ سے آپ کی بیٹیاں شادی کے چالیس پچاس سال بعد بھی سہاگن ہیں ۔
” میں نے باری باری سب کو دیکھا”
لیکن آرزو تم نے ایک بات پر غور نہیں کیا شاید۔۔
” سفید کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں تسبیح لیے وہ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ دبائے مجھ سے کہنے لگیں” ۔
نور کی رسم بھی تو تم نے کی تھی تو تمہارا کیا اس بچی کے سر نہیں آیا ؟ تم نے اپنے ساتھ اسے بھی بیوہ نہیں کر دیا ؟. سب عورتیں وہاں سر اثبات میں ہلا نے لگی میں نے افسوس سے انہیں دیکھا اور سوچا کہ انہیں کوئی نہیں سمجھا سکتا ۔ اتنے میں نور میرے پاس آئی اور کہنے لگی ماما آپ کیوں میری وجہ سے بحث کر رہی ہیں۔
 میں۔۔ میں نہیں کرتی رسم چھوڑے انہیں۔ میں نے نور کو دیکھا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ناک لال ہو رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا نور یہ میں تمہارے لئے نہیں کر رہی ہوں نور نے نہ سمجھی سے مجھے دیکھا۔ یہ میں آگے آنے والی نسل کے لئے کر رہی ہوں یہ جہالت کب تک چلے گی کسی نہ کسی کو تو اسے ختم کرنا ہوگا اللہ نے اگر مجھے اس کام کے لئے چنا ہے تو یہ کام میں مکمل کرکے ہی رہوں گی ۔سب وہاں ہماری طرف متوجہ تھے ۔۔
لیکن ماں مجھے ڈر لگ رہا ہے اگر اللہ نہ کرے اگر مشک کے ساتھ بھی ۔۔۔ یہ کہہ کر نور رونے لگی ۔
نور۔۔۔ میں نے اس کے آنسو صاف کیے۔ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو بیٹا یہ سب نصیبوں کے کھیل ہوتے ہیں تمہاری رسم کرنے یا نہ کرنے سے مشک کی قسمت میں کوئی بدلاؤ نہیں آئے گا اللہ نے اس کا نصیب تب لکھ دیا تھا جب وہ میرے پیٹ میں تھی یہ سب پرانی سوچیں ہیں اسے ختم کرو ۔
” آخر کب تک پرانی سوچ عقل کے دروازے پر پہرا دیتی رہے گی ؟ نئی سوچ کو آنا ہوگا اور عقل کے دروازے پر کھٹکھٹانا ہوگا”
آخر کیوں یہ جہالت ختم نہیں ہوتی ہے ، کیوں اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے کسی نے سوچا نہیں اور اگر کسی نے سوچا بھی تو اس نے صرف آواز اٹھائی قدم نہیں پر میں قدم اٹھاؤ گی اور اس جہالت کو آج ختم کرؤ گی ۔
میں نے نور کا ہاتھ پکڑا اور اسے مشک کے برابر بیٹھا دیا۔
نور نے مجھے دیکھا تو میں نے اسے رسم کرنے کا کہا مشک نے نور کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور سر اثبات میں ہلایا ۔
نور مسکراتے ہوئے رسم ادا کرنے لگی۔ وہاں موجود کچھ لوگ مسکرا رہے تھے ، تو کچھ باتیں بنا رہے تھے ۔ مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں تھا ۔ مجھے تو بس یہ خوشی تھی کہ میں نے اس جہالت کو ختم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا تھا اور اب آگے دیکھنا یہ تھا کہ یہ قدم یہیں رک جائیں گے یہ قدم با قدم ان قدموں میں قدم بڑھتے چلے جائیں گے ۔ میں مسکراتی ہوئی اسٹیج تک پہنچی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ اس خوشگوار لمحے کو کیمرے کی آنکھ میں قید کروا لیا ۔
( ختم شدہ)
Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Check Also
Close
Back to top button

Adblock Detected

Please disable it to continue using this website.