Namaz or Quran

Ask for More Information

Meet The Author

Namaz or Quran

السلام وعلیکم ورحمتہ الله وبرکاتہ
زندگی میں ہم بہت کچھ کرتے ہیں کبھی فارغ نہیں بیٹھتے کبھی کوئی کام کبھی کوئی مشغلہ اور مقصد، یا تو پیسہ یا پھر فن ہوتا ہے
بہت سے کام ہم پیسے کے لیے کرتے ہیں جو ہماری ضرویات زندگی پوری کرتا ہے
اور بہت سے شوقیہ من پسند کام جنہیں ہم دل سے کرتے ہیں مقصد سکون دلی سکون ،ذہنی سکون حاصل کرنا ہوتا ہے
ہم ساری زندگی صرف سکون کے پیچھے لگا دیتے ہیں
ِپانی پی لو تو پیاس ختم سکون
کھانا کھالو تو بھوک ختم سکون
نوکری اچھی مل جائے وسائل پورے ہوں تو سکون
اچھی جگہ داخلہ ہوجائے ڈگری مل جائے سکون
غرض زندگی کے ہر پہلو میں ہم سکون تلاشتے ہیں
غرض ہم کھڑے ہوتے اور بیٹھتے بھی سکون کے لیے ہیں کہ نہ انسان زیادہ دیر بیٹھا رہ سکتا ہے نہ کھڑا
یہ سب جسمانی سکون ہیں اصل سکون روحانی ہوتا ہے روح کا سکون
دل کا قرار
اصل میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب ہمارے پاس تمام آسائشیں ہونگی ڈھیر سارا پیسہ ہوگا،بنگلہ گاڑی ہوگی تو ہم سکون میں ہونگے
جبکہ حقیقت اس کے اُلٹ ہے
سکون کسی بنگلے کے بڑے سے سیٹنگ ایریا میں یا کسی چمکتی گاڑی میں نہیں ہوتا سکون تو دل میں ہوتا ہے
دل سے روح میں اترتا ہے
جب آپ کا دل پرسکون ہو
جب آپ کی روح مطمئن ہو ہاں تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ سکون میں ہیں
سکون کوئی مہنگا برانڈڈ آئیٹم نہیں ہے کہ اسے ہم ڈھیر سارا پیسہ کما کر خرید لیںگے نہیں سکون ایک اندیکھا سا اطمینان ہے
دل کی ٹھنڈک ہے
تبھی تو بڑے بڑے بلگیٹس کروڑوں روپے کمانے کے باوجود بے سکون تھے۔
وجہ
ہمارا نظریہ
ہماری سوچ
جی ہاں ہماری سوچ سکون کو لے کر بلکل غلط ہے
ہم جسمانی سکون کو ہی روحانی سکون سمجھتے ہیں
جبکہ روح کا سکون الگ ہوتا ہے
ہاں ظاہر ہے پیاس میں پانی پینے سے جسم کو سکون ملے گا لیکن اس سے روح کو سکون ملے اس کی کیا گارنٹی ہے
ہم دولت کو سکون سے تابع کرتے ہیں جبکہ سکون کا دولت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں،
آپ کو معلوم ہے بڑے بڑے بنگلے میں بیٹھے لوگ وہ سکون حاصل نہیں کرپاتے جو ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا فقیر حاصل کرلیتا ہے۔
وجہ ان کا نظریہ انھوں نے اپنی ساری زندگی دولت حاصل کرنے میں لگائی کہ آسائشیں ہونگی تو سکون ہوگا اور اس سب میں وہ صحیح غلط کو بھی بھول گئے تھے
اور ایک فقیر(اللہ کا بندہ) ساری زندگی یہ نظریہ رکھتا ہے کہ رب راضی ہوجائے تو سکون خودبخود جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے سکون کو ہمارے اندر رکھا ہے اور ہم سارے جہان میں تلاشتے ہیں
رب کی رضا کو نہیں پہچانتے ہیں
میرا موضوع نماز اور قرآن بھی سکون سے تعلق رکھتے ہیں روح کے سکون سے
جسمانی سکون کے لیے آپ کو محنت کرنی ہے ظاہر ہے کھانا ہے تو کمانا بھی ہے
لیکن اس سب میں روح کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے رب کی رضا کو نہیں بھول جانا چاہیے
 نماز روح کا سکون
دلوں کی راحت
 اور رب کی رضا کا حصول ہوتی ہے
 ہم دنیاوی جھمیلوں میں نماز کو یا تو ترک کردیتے ہیں یا اتنی دیر کردیتے ہیں کہ وہ اپنا مقام ہی کھو چکی ہوتی ہے
ہمارے لائف اسٹائل میں نماز کا وجود یا تو ہے ہی نہیں یو پھر سب سے آخر میں ہے۔
نماز اگر ہم صرف یہ سوچ کر پڑھ لے نہ کہ یہ ہم پر فرض ہےتو جانے کتنے مسئلے خود ہی حل ہوجائیں ۔
نماز ہمیں ہمارے اصل سے ملاتی ہے رب سے کلام کرواتی ہے
ہر نماز کے وقت موذن کی آوز ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا رب واحدہ لاشریک اللہ تعالیٰ ہے وہ ہمیں پکار رہا ہے ہم سے ہمکلام ہے
اور ہم بعد میں پڑھیں گے کہہ کر ٹال دیتے ہیں
ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ آپ کسی کو آواز دیں اور وہ شخص آپ کے سامنے ہو پھر بھی وہ آپ کی آواز نہ سنے تو کیسا فیل ہوگا آپ کو
غصہ آئے گا نہ؟
تو سوچیں اللہ تعالیٰ رب ہے ہمارے خالق و مالک تمام جہانوں کے ،جب ہم ان کی آواز نہیں سنے گے تو انھیں کیسا لگے گا کیا انھیں غصہ نہیں آئے گا
اور ہم تو پھر ایک دفعہ بلا کر دوبارہ اس بندے سے کلام نہیں کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ بلاتے ہیں دن میں پانچ بار لگاتار بار بار ہمیں پکارتے ہیں کہ شاید ہم اب آئے شاید اب———-لیکن افسوس ہم تب بھی نہیں سنتے
ابھی بہت کام ہے
جانا ہے دیر ہو رہی ہے
پڑھ رہی/رہا ہو
سو رہی/رہا ہوں
پھر پڑھ لونگا
سردی ہے
بلاح بلاح
سو بہانے ہوتے ہیں نماز نہ پڑھنے کے
جبکہ میں کہتی ہوں ان سو کو چھوڑ کر صرف ایک پکڑ لو کہ یہ رب کا حکم ہے اس کی رضا کا حصول ہے انبیاء کا دستور ہے وہ بھی نماز پڑھتے تھے پھر ہم کونسے مفتی لگے ہوئے ہیں کہ نماز نہ پڑھیں تو بچ جائے گے۔
:اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ
“اور جو اندھا بن جائے ذکر سے رحمٰن کے ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لیےایک شیطان تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے”
سورت الزخرف آیت 36
 اللہ اکبر  کیا ہم شیطان کے ساتھی نہیں بنے ہوئے شیطان تو ہمارا کھلا دشمن ہے نہ ،تو ہم اپنے دشمن کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں
ناجانے ہمیں کیا ہوگیا ہے۔
دراصل
نماز ہی مسلمان اور کافر میں فرق کرتی ہے اور نماز ہی انسان کو بری عادتوں سے نجات دلاتی ہے ہم خود کو بہت اچھا  اور بہت   سلجھا ہوا بہت قابل سمجھتے ہیں اور اسے آجکل ہم سیلف کونفیڈینس کا نام بھی دیتے ہیں  ٹھیک ہے انسان کو خود اعتماد ہونا چاہیے لیکن انسان کو اوور اعتماد نہیں ہونا چاہیے اب ہم سوچیں گے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ سیلف کونفیڈینس ہے یا اوور کونفیڈینس
اس سلسلے میں بھی ہماری نماز ہماری مدد کرتی ہے وہ ہمیں منافقوں کی پہچان کرواتی ہے اور یہ بات میں نہیں حدیث کہتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے اور چل نہ سکتے تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے۔”
(صحیح بخاری: 657)
فجر اور عشاء کی نماز واقعی میں بہت بھاری ہوتی ہے فجر کے وقت ہمیں نیند پیاری ہوتی ہے اور عشاء کے وقت بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے ہماری جب نماز رہ جاتی ہے تو پہلا خیال ہمارے دماغ میں یہی آتا ہے کہ میں بزی تھا یا کہیں گیا ہوا تھا سو بہانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اصل بات یہ نہیں ہوتی اصل وجہ کچھ اور ہوتی ہے جس پر ہم دھیان نہیں دیتے وہ یہ کہ ہم نے جانے انجانے میں یا جان بوجھ کر کچھ ایسا کام کیا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں اور نتیجہ ہمیں نماز کی توفیق نہیں مل پاتی ہمیں ایسے وقت پر بجائے یہ سوچنے کہ کیا ہوا جو رہ گئی میں بزی تھا یا مجبوری تھی یہ سوچنا چاہئے کہ ہم سے کونسا ایسا کام ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں نماز پڑھنے کی توفیق نہیں دی اور ہم سے بات نہیں کی
اگر آپ بھی اپنی فجر اور عشاء کی نماز یا کوئی بھی نماز کے چھوڑ جانے سے پریشان ہیں تو سوچیں کہیں جانے انجانے میں ہمارا نام  منافقوں میں تو نہیں آرہا اور احتیاط کریں ہر اس عمل سے جو آپ کو لگتا ہے کہ یہ آپ کے اور اللہ کے   درمیان دیوار بن سکتا ہے یا آپ کی نمازوں کی ادائیگی میں روکاوٹ بن سکتا ہے چھوڑ دیں سب پھر دیکھیے گا آپ کو سکون  قلب نصیب ہوگا جو دنیا کی کسی دولت سے نہیں کمایا جاسکتا جو صرف اللہ تعالی کے ذکر سے ہی نصیب ہوتا ہے
 جسطرح ہم اپنے جسم کی غذا کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح روح کی غذا کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ روح ہے تو جان ہے ورنہ محض مٹی کا ڈھیر ہیں ہم،
روح کی غذا قرآن پاک ہے
آپ کو معلوم ہے فرشتوں کی غذا رب کی حمد و ثناء (تسبیحات) ہیں ۔
بلکل اسی طرح ہماری روح کی غذا قرآن پاک ہے اس کی تلاوت ہے ،اس پر غوروفکر کرنا ہے
اس پر عمل کرنا ہے ،اور پھر اسے آگے پہنچانا ہے
قرآن پاک نہ صرف شرعی احکامات سے آگاہی کا ذریعہ ہے بلکے یہ رب کے سیدھے راستے صراط مستقیم پر چلنے کا بہترین ذریعہ ہے
یہ ہماری زندگی کی عکاسی کرتا ہے
جی ہاں یہ میری آپ کی سب کی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے
آپ کبھی غور تو کریں بات ساری غور کرنے کی ہوتی ہے
جب ہم غور ہی نہیں کریں گے تو سامنے پڑے سونے کو بھی پتھر ہی سمجھتے رہیں گے
زندگی کتنی ہے اور کتنی نہیں اس کا اندازہ آج کا جدید سائنسدان بھی نہ لگا سکا
کب کونسے لمحے ہماری سانس تھم جائے اس کے بارے میں معلوم کرنے کا کوئی آلہ نہیں
پھر ہم اتنے بے فکر کیوں ہیں آخر وجہ کیا ہے اس بےفکری کی ،اس لاپرواہی کی
ہم شیطان کے ساتھی بنتے جارہے ہیں ناجانے کیوں ؟؟؟!؟
زندگی میں ہی رب کی پیروی کرنی ہے آخرت میں تو اجر ملے گا جزا و سزا ہوگی پھر ہم ناجانے کس کے انتظار میں ہیں؟
ایسے بہت سے سوالیہ نشان ہمارے سامنے کھڑے ہمیں منہ چڑارہے ہیں
ہم پتہ نہیں کب نظر ثانی کریں گے
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصح ہو اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والا مسلمان بنائے آمین ثم آمین ۔
جزاکم الله خیراً وکثیراً

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Namaz or Quran”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?