Pehla Qadam

Ask for More Information

Meet The Author

Pehla Qadam written by Yamna Zafa

Yamna Zafar is a Social Media writer and now her Novels/Afsana are being written with Novels Hub. Novels Hub is a new platform for new or well-known Urdu writers to show their abilities in different genres of Urdu Adab.

Regards

Novels Hub

Afsana Pehla Qadam Downloading Link

 

”لالی کدھر ہے اماں؟آج نظر نہیں آرہی”۔بشیر نے بیسن سے ہاتھ دھوتے ہوئے تخت پہ پان چباتی اماں باقرہ کو دیکھا تھا۔وہ کچھ دیر پہلے ہی دْکان سے لوٹا تھا۔کھانا بھی خودی دیگچی سے نکال کے کھا لیا تھا مگر لالی کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں تھا۔

”اے میاں اْس نے کدھر جانا ہے۔وہ محلے کی ساری لڑکیاں صْغراں کے گھر ڈھولکی پیٹنے گئی ہیں۔۔۔تو بس تیری بہن نے بھی کہاں ٹکنا تھا چلی گئی صغراں کی طرف اْچھلتی کودتی”۔اماں باقرہ نے پان منہ کے ایک طرف کرتے ہوئے بمشکل بات مکمل کی۔تب تک بشیر آستینیں موڑتا اْن کے ساتھ تخت پہ اکے بیٹھ گیا تھا۔

”یہ اماں خالہ صغراں کے پاس شبو کی شادی کے پیسے کہاں سے آئے۔اجمل اور رشید سے تو کوئی اْمید نہیں ہے”۔اْس نے ہاتھ اگے بڑھا کے اماں سے چھالیا لی تھی۔

”اے ہیں۔۔۔اْن کمبختوں کو بہن کی کیا فکر چولہے میں جائے ایسی بدبخت اولاد جس کے ہوتے ہوئے بھی ماں در در ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے ۔ وہ  صغراں کا سیٹھ ہے نا جس کے گھر وہ کام کرتی ہے۔ کیا نام ہے اْس کا ”۔اماں باقرہ نے اپنے بوڑھے دِماغ پہ زور ڈالا تھا۔

”سیٹھ وقار”۔ بشیر نے نام لے کی اْن کی مشکل اسان کی تھی۔

”ہاں وہی سیٹھ وقار”۔ اماں باقرہ ایکدم جوش سے بولی تھیں۔”وہ صْغراں کو کہوے ہے کہ اپنی لونڈی کا ویاہ کرو خرچہ وہ اْٹھاوے گا”۔

”سارا”۔ بشیر کو حیرانی ہوئی تھی۔

”تے ہور کی۔۔۔سیٹھ کے پاس نوٹوں کی کون سی کمی ”۔اماں نے اپنے روائتی انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا تھا۔

”کم ہی ہوتے ہیں اماں ایسے لوگ”۔

”جتنے بھی ہوتے ہیں میاں صغراں کیلیے تو میرے سوہنے سرکار نے اسانی کر دی نا۔۔۔بس اب شبو کا ویاہ سکھ سے ہو جاوے تو وہ بھی چین کی سانس لیوے۔۔اجمل اور رشید کی گھر والیوں نے تو سانس لینا مشکل کر دیا ہے اْس یتیم کا”۔اماں باقرہ کے دِل سے دْعا نکلی تھی۔بشیر اثبات میں سَر ہلاتا ہوا تخت سے اْٹھا تھا۔

”لالی تو آجائے گی نا واپس”۔

”لو۔۔اْس نے کیوں رْکنا وہاں۔۔آجاوے گی تھوڑی دیر میں”۔اماں باقرہ نے اْسے مطمئین کیا تھا۔ وہ سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔

                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اماں،اماں،اماں”۔چیختی چنگھاڑتی لالی پلو سنبھالتی گرتے پڑتے گھر میں داخل ہوئی تھی اور ادھر اماں باقرہ کا منہ میں گیا گھونٹ اْس کی چنگھاڑ سْن کے فوارہ کی طرح منہ سے نکلا تھا۔

”اے ہے کیا ہو گیا ہے کیوں پگلا گئی ہے”۔انھوں نے غصہ سے اْسے دھمکوا جْڑا تھا۔

”اماں،اماں غضب ہو گیا میری اماں”۔لالی تخت پہ جوتوں سمیت چڑھ  کے بیٹھ گئی تھی۔

”ہیں ہیں۔۔۔کیا ہوا۔۔کیو ں دہلا رہی ہے کلموہی۔کچھ بک تو سہی۔ کچھ پھوٹ تو”۔اماں باقرہ نے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ایک اور دھموکا اْسے جْڑا تھا۔

”اماں وہ خالہ صغراں کے جو سیٹھ تھے نا۔۔آج صبح انہیں پولیس پکڑ کے لے گئی ہے۔خالہ ابھی اْن کی طرف پیسے لینے گئیں تب چوکیدار نے بتایا”۔لالی نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ساری تفصیل اْن کے گوش گزار کی تھی اور اِدھر اماں باقرہ صدمے سے لڑکتی ہوئی بچی تھیں۔

”یہ کیا بول رہی ہے بدبخت۔۔تیرے منہ میں خاک۔ہائے نی صغراں ہائے نی شبو۔۔پرے ہٹ میں جا کے دیکھوں”۔اْسے ایک طرف دھکا دیتے ہوئے اماں باقرہ نے اپنا پلو سَر پے ڈالا تھا اور آندھی طوفان کی طرح صغراں کے دو مرحلے کے مکان کی طرف دوڑ پڑیں تھیں۔صغراں کے گھر  قیامت کا سماں تھا۔سیٹھ کے گرفتار ہونے سے شبو کی شادی کا خرچہ رْک گیا تھا اور ایسے میں اْس کی شادی ہوتی دور دور تک نہیں دیکھائی دے رہی تھی۔ خالہ صْغراں کو بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔شبو دْنیا والوں کی نظر سے بچنے کیلیے سہمی ہوئی ایک کونے میں چھپ کے بیٹھ گئی تھی۔ہر کوئی اْسے ترحم بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا سوائے بھابیوں کے جو آتے جاتے اْسے کینہ توز نظروں سے زخمی کر رہی تھیں۔رات کو اماں باقرہ کے ذریعے بشیر کو بھی یہ خبر گھر آتے ساتھ مِل گئی تھی۔

”سب قسمت کے کھیل ہیں اماں۔اب اِس سارے میں نقصان تو شبو کا ہی ہوا نا”۔بشیر نے تاسْف سے کہا تھا۔

”سولہ آنے بات کی ہے تو نے۔سوہنا سرکار بس قسمت کا دھنی بنا دیوے لونڈیوں کو۔اماں باوا تو ہر ویلے خوش رہوے ہیں”۔اماں باقرہ نے افسردگی سے گہری سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔

”لالی شبو کی طرف ہی ہے”۔بشیر نے تخت سے اْٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔

”ہاں۔۔شبو کہتی خالہ چھوڑ جاو۔۔مجھ سے انکار نا ہو سکے ہے۔۔کل صبح آجاوے گی”۔اماں باقرہ نے ساتھ پڑا پاندان اپنی طرف کرتے ہوئے جواب دیا۔بشیر اثبات میں سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اگر شبو کی جگہ کسی اور کا گھر ہوتا تو وہ لالی کو کبھی رکنے نا دیتا۔

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اماں آتے جاتے وہ دونوں چڑیلیں شبو کو کوستی رہتی ہیں۔پتہ نہیں اب کیا ہو گا۔لڑکے والوں نے جہیز کے بغیر شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔کہتے ہیں جہیز اْدھر پہنچے گا تو بارات اِدھر آئے گی”۔لالی نے روتے ہوئے اماں باقرہ کے سینے پہ سَر رکھ دیا تھا۔ محلے میں اْس کی ایک ہی تو پکی سہیلی تھی۔ وہ بھی اب ہنسنا بولنا بھول چکی تھی۔

”بس بیٹی خدا کسی کو یہ دِن نا دیکھاوئے اور تو کیوں روتی ہے سوہنے سرکار کی کو ئی حکمت ہووے ہے اِس سب میں”۔انہوں نے پیار سے اْسے پْچکارا تھا۔

”اماں کیسے نا روں۔ مجھ سے شبو کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ بیس دِن رہ گئے ہیں اْس کی شادی کو اور ا ب تک کچھ ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دے رہا۔سیٹھ رہا بھی ہو گیا تو اگلے گھنٹے ہی پلین سے ولائیت چلا جائے گا۔ایسے میں شبو کیلیے تو کوئی اْمید نہیں بچی ہے”۔لالی نے رندھی ہوئی آواز میں آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔اماں باقرہ کا دِل بھی ڈوبا تھا۔ شبو انہیں لالی کی طرح کی عزیز تھی۔

”اجمل اور رشید اْن کو غیرت نا آوے”۔

”اماں اْن کمینوں کا تو نام نا لیں کہتے ہیں خالہ کی ذمہ داری ہے وہی اْٹھائیں اوپر سے اب خالہ بھی شبو کو کوستی رہتی ہیں۔کالی قسمت کہہ کہہ کے اْس کی جان کھاتی رہتی ہیں۔وہ بیچاری تو تنہا بھیڑیوں میں پھنس گئی ہے”۔وہ پھر اماں کے سینے سے جالگی تھی۔

”ہم کیا کرسکے ہیں۔امیر تو اتنے ہیں نہیں کہ شبو کے ویاہ کا خرچہ دے سکے”۔انہوں نے تاسف سے اْس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔

”اماں،ہم مدد تو کر سکتے ہیں خالہ صغراں کی”۔ لالی دھیرے سے بولی۔اماں کا چلتا ہاتھ ایک دم رْکا تھا۔

”وہ کیسے”۔انہیں ایک دم تجسس ہوا۔

”اماں”۔لالی نے سَر اْن کے سینے سے اْٹھایا۔”وہ جو تو نے میرے ویاہ کیلیے رقم جوڑی ہے وہ اگر ہم خالہ کو دے دیں”۔اور اگلے ہی پل اماں کا سارا تجسس غصہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔

”اے ہیں منہ بند کر نالائق۔۔خبردار آیندہ  یہ بات منہ سے پھوٹی۔تو کیا چاہتی ہے میں تیرے ویاہ پہ بھی در در پیسہ مانگوں”۔اماں نے دہل کے ایک تھپڑ اْس کی کمرپہ کسا تھا۔لالی بلبلا کے رہ گئی تھی۔

”اماں خدا وسیلہ بناتا ہے۔۔میرا تو بھائی بھی ہے۔کچھ نا کچھ ہو ہی جائے گااور میری کون سا ابھی شادی ہورہی ہے”۔لالی بھی کہاں رْکنے والی تھی۔اماں کا غصہ عود کے باہر آیا تھا۔

”تو کیا تیرے بھائی نے ویاہ نہیں کرنا۔ساری زندگی تیرا خرچہ ہی پورا کرتا رہے وہ”۔اماں نے غصیلی نگاہوں سے اْسے گھورا تھا۔

”اماں پر خالہ کی اگر ہم مدد نہیں کریں۔۔۔۔”۔

”بس بہت ہوا۔تیری زبان کاٹ دوں گی اگر کسی کے سامنے یہ بات پھوٹی”۔وہ غصے میں ایکدم چلائیں تھیں۔مگر لالی بھی اپنے نام کی ایک تھی۔آخرہ اماں باقرہ نے ہی اْس کی تربیت کی تھی۔

”تو پھر ٹھیک ہے اماں اگر یہ نہیں کر سکتی تو بھائی کیلیے شبو کو مانگ لو”۔باقرہ اماں نے اپنا سَر پیٹ لیا تھا۔

”اے کھسک تو نہیں گئی ہے تو۔۔اپنے اتنے سوہنے لڑکے کیلیے میں اْس شبو کو مانگوں گی۔ہمدردی اپنی جگہ پر یہ نا ہووے ہے ہم سے”۔اماں باقرہ نے صاف انکار کیا تھا۔ دِل تو اْن کا چاہ رہا تھا کہ لالی کو دھنک کے رکھ دیں۔

”اماں آخر اِس میں حرج کیا ہے۔شبو اتنی اچھی ہے تیری عزت بھی کرتی ہے۔ کھانا بھی پکاتی ہے جھاڑو بھی مارتی ہے۔پھر مسلہ کیا ہے”۔وہ بھی آج آستینیں چڑھا کے میدان میں اْتری تھی۔

”اے بی بی کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔میرے لڑکے کے جوڑ کی نہیں ہے بس وہ”۔اماں کی بات سْن کے لالی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔اپنی اتنی سمجھداد اماں سے وہ اِس بات کی توقع نہیں کر رہی تھی۔

”اماں یہ کیا بات ہوئی مشکل وقت میں یہ چیز نہیں دیکھی جاتی۔خالہ مسلے میں ہیں اور ہمیں اْن کی مدد کرنے چاہییے اور شکل سے کچھ نہیں ہوتا دِل اور سیرت اچھی ہونی چاہیے”۔

”تو ہم ہی کیوں کریں یہ مدد۔کیا ساری دْنیا مر گئی ہے۔کیا ساری دْنیا سیرت نہیں دیکھ رہی”۔

”اماں  دوسروں پہ کھیڑے نکالنے سے پہلے سوچ تو لو ہم کتنے پانی میں ہیں۔خود مدد کریں گے تو دوسروں کو بڑھنے کی تلقین کریں گے نا”۔

”ہائے ہائے کہتی تھی بشیر سے مت پڑھا اِسے۔اب دیکھو کیسے چڑھ رہی ہے مجھ پہ۔او بی بی یہ جو چار جماعتیں پڑھ کے تو اْستانی بنتی پھر رہی ہے نا چپ کر کے بیٹھ۔گِچی مڑوڑ دوں گی میں تیری اگر آئندہ اِن میں سے کوئی بھی بات پھوٹی”۔انہوں نے اْسے چوٹی سے پکڑ کے کھینچا تھا۔

”اماں۔ایک بار سوچو تو سہی”۔لالی اب بھی باز آنے والوں میں سے نہیں تھی۔اماں نے غصہ سے اْسے تخت سے دھکا دیا۔

”دفع ہو جا یہاں سے دیکھتی ہوں تو صغراں کی طرف کیسے جاتی ہے ٹانگیں توڑ دوں گی تیری میں۔بڑی آئی مجھے سمجھانے والی”۔غصہ میں تن فن کرتی وہ تخت سے اْتریں اور غسل خانے میں گھس گئی تھیں۔اور اِدھر لالی رات کو بشیر سے بات کرنے کا پکا اِرادہ کر چکی تھی۔

                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”پیسے تو اماں مر کے بھی نہیں دیں گی”۔رات کو اماں کے سونے کے بعد وہ خاموشی سے بشیر کے کمرے میں آئی تھی۔بشیر سونے کی تیاری کر رہا تھا۔اْسے آتے دیکھ کے اْٹھ بیٹھا تھا۔اور ساری بات اْس سے سْن کے وہ خود بھی سوچنے پہ مجبور ہوگیا تھا۔

”تو پھرآپ شبو سے شادی کر لیں”۔

”لالی یہ ناممکن ہے۔اماں بھی نہیں راضی اور میں نے بھی ہمیشہ اْسے بہن کی نظر سے دیکھا ہے”۔بشیر نے اپنی طرف سے صاف انکار کیا۔

”دیکھنے میں اور ہونے میں فرق ہے بھائی۔وہ آپ کی بہن نہیں ہے اور آپ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شبو سے بہتر لڑکی آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔آپ ہی کہتے ہیں مجھ سے کہ اْس سے دوستی کبھی نا توڑنا وہ اچھی لڑکی ہے۔تو پھر اچھی لڑکی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے آپ”۔لالی پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔وہ اْسی کے کہے گئے الفاظ اْسے لوٹا رہی تھی۔

”مجھے سمجھ نہیں لگ رہا لالی یہ اچانک سے تمہیں کیا سوج گئی ہے”۔بشیر نے ششوپنج میں جواب دیا۔وہ شبو کو پسند کرتا تھا مگر اِس پسند میں کبھی بھی کوئی غلط احساس نہیں تھا۔شبو اور لالی اْس کیلیے ایک جیسی تھیں۔

”تو غلط کیا سوجی ہے بھائی۔مدد تو ہم رقم سے بھی کر سکتے ہیں مگر اْس کیلیے اماں نہیں راضی۔تو پھر ایک یہی بہترین راستہ بچا ہے اور آپ کی شادی کی عمر بھی ہے”۔لالی کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک جواب تھا۔

”لالی تم اتنی بڑی بڑی باتیں کب سے کرنے لگی ہو۔ابھی تو میں تمہاری شادی کروں گا پھر اپنی کا سوچوں گا”۔بشیر سچ میں اْلجھ گیا تھا۔یہ بات وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر لالی کے جواب اْسے سوچنے پہ مجبور کر رہے تھے۔

”کہاں لکھا ہے کہ پہلے بہن کی شادی ہونی چاہیے”۔ اب کے بشیر سچ میں لاجواب ہو گیا تھا۔”میں نے اْسے بہت ابتر حال میں دیکھا ہے بھائی۔خالہ نے بھی اْس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔کہتی ہیں اْسے ایدھی میں جمع کرا دیں گی یا زہر دے دیں گی۔بھابھیاں اْس کا ایک ایک نولا گنتی ہیں۔بھائی اْس کی طرف دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔کہتے ہیں شبو کی منحوسیت اْن کے گھر کو بھی خراب کر رہی ہے۔اْس کا کون ہے ہمارے سوا۔ہم کام نہیں آئیں گے تو اور کون آئے گا”۔آنسو خودبخود لالی کی آنکھوں سے جھلک پڑے تھے۔بشیر نے الجھتے ہوئے اْس کی آنسوں سے تر آنکھوں کو دیکھا تھا۔

”لالی تم اپنی جگہ بھی ٹھیک ہو۔مگر سوچو لوگ کیا سوچیں گے کہ میں نے اپنی بہن کے ذریعے شبو پہ ڈورے ڈلوائیں ہیں”۔اْس نے لالی کو باز رکھنے کی ایک اور کوشیش کی۔

”لوگوں کی سوچ کو چھوڑ دیں۔لوگوں کا کام ہے سوچنا۔آپ بس یہ سوچیں کہ کل کو شبو کی جگہ آ پ کی بہن بھی ہو سکتی ہے”۔ایک ہی وار میں لالی نے اْس کی  ساری کوشیش ناکام کر دی تھیں۔

”لالی”۔بشیر کانپ گیا تھا۔لالی نے اپنی بات جاری رکھی۔

”اور اگر آج آپ یہ پہلا قدم اْٹھایں گے تو کل کو آپ کی بہن کے لیے بھی کوئی   ہمدرد بن کے  سامنے آئے گا”۔اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے وہ بنا اْس کا جواب سنے باہر نکل گئی تھی۔  سوچوں میں غرق بشیر نے دروازے سے نظر آتے صحن میں پلنگ پہ چادر لگاتی لالی کو دیکھا تھا۔ آج وہ اْسے اپنی ننھی لالی نہیں لگی تھی۔ وہ بڑی ہو گئی تھی ۔ بشیر سے بھی بڑی۔۔۔۔

                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری رات کی مسلسل سوچ بچار کے بعد بشیر نے وہی فیصلہ کیا جو اْسے کرنا چاہیے تھا۔صبح سب سے پہلے اْس کی نظر بیسن پہ کپڑے دھوتی افسردہ سی لالی پہ پڑی تھی۔اماں کے کہنے پہ اْس نے خاموشی سے بشیر کو ناشتہ دیا تھا اور دوبارہ کپڑے دھونے کھڑی ہوگئی تھی۔بشیر بھی اْسے مخاطب کیے بغیر دْکان پہ چلا گیا تھا۔ اْس نے رات کو اماں سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اْس کی چھوٹی سی موٹر مکینک کی دْکان تھی۔ خدا کے فضل سے دْکان اتنی چل جاتی تھی کہ دو وقت کی روٹی آرام سے مِل جاتی تھی۔وہ محنتی بھی تھا اور اْس کے ہاتھ میں صفائی بھی تھی اِسی لیے جو ایک بار آتا تھا وہ دوبارہ بھی اپنی موٹر ٹھیک کرانے بشیر کی ہی دْکان کا رْخ کرتا تھا۔رات کو کھانا کھانے کے دوران بشیر نے بڑے سلیقے سے اماں کو سمجھانے کی کوشیش کی اور اِدھر اماں اْس کی بات سْن کے ہتھے سے ہی اْکھڑ گئی تھیں۔ انہوں نے غصے میں زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔لالی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بشیر کو کھانے دے کے پڑوس والی اماں کے بْلانے پہ اْن کے گھرچلی گئی تھی اور یہی دیکھ کے بشیر نے بات شروع کی تھی۔کافی دیر تک وہ اماں کو سمجھاتا اور مناتا رہا  یہ کام اْس کی سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ اوپر سے لالی کو بھی اْس نے اماں کے عتاب سے بچا کے رکھنا تھا۔ اماں نے بھی لالی کو بشیر سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ اْسے ہی کچل ڈالتی۔مگر اماں نے نہیں ماننا تھا سو وہ نہیں مانی لیکن بشیر نے بھی ہمت نا ہارنے کی قسم کھا لی تھی۔مسلسل دو دِن کی انتھک محنت کے بعد آخر اماں نے رضامندی دے ہی دی تھی۔اور آج شام بشیر کی ضد پہ وہ رشتہ ڈالنے جا رہی تھیں۔

”تیرے بھیا کا دِل آوے ہے شبو پہ”۔ پان منہ میں ڈالتے ہوئے اماں نے سبزی کاٹتی لالی کو مخاطب کیا تھا۔

”کیا”۔لالی نے ناسمجھی سے منہ اْٹھا کے دیکھا تھا۔

”ارے میں کہوے ہوں تیرا بھیا لٹو ہو گیا ہے شبو پہ۔کہتا ہے اْسی سے شادی مناوے گا”۔لالی کو اپنی سماعت پہ شک ہوا۔وہ تو بشیر کی طرف سے انکار سمجھ کے چْپ ہوگئی تھی۔

”بھیا نے آپ سے ایسا کہا”۔

”اے لو۔۔۔۔۔کب سے میرے کان میں ٹر ٹر کر رہا ہے۔میں نے بھی سوچا کر لے اپنی مرضی۔خودی بھْکتے گا تو ماں کی بات کا اندازہ ہو گا”۔ اماں باقرہ نے زور سے اپنا پاندان بند کر کے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ مگر شبو وہ ابھی بھی بے یقینی سے ماں کو تک رہی تھی۔

”اماں سچ کہ رہی ہو نا۔۔کیا بھیا نے ایسا ہی کہا”۔وہ سب کام چھوڑ چھاڑ اماں کے تخت پہ چڑھ کے بیٹھ گئی تھی۔

”اے میں کیوں جھوٹ بولو ہوں۔اور ایک بات سْن یہ سب تیرا کیا دھرا تو نہیں”۔اماں نے جھانچتی نظروں سے اْسے گھورا۔لالی کا گلہ ایک دم سوکھا تھا۔بشیر نے اْس کا نام تو نہیں لے لیا تھا۔

”نہیں اماں میں بھلا ایسی بات بھیا سے کیوں کروں گی۔آپ نے ہی جب منع کر دیا تھا تو میں بھیا سے بات کر کے کیا کرلیتی”۔اْس نے بڑی ہمت سے روانی سے جھوٹ بولا تھا۔

”ہممم۔۔ٹھیک ہے آج شام تیار رہیو۔رشتہ لیکے جاویں گے۔اور ہاں یہ َبلو سے ذرا ایک کلو مٹھائی منگوالیجیو۔خالی ہاتھ نہیں جانا”۔ لالی کا دِل خوشی کے مارے اچھل کے حلق میں آیا تھا۔اْس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اْڑ کے بشیر کو گلے لگ لے۔

”ہائے اماں میری پیاری اماں”۔لالی خوشی سے اْن سے لپٹ گئی تھی۔”میں سب کر لوں گی تو فِکر نا کر”۔

”اے ہے پیچھے ہٹ لڑکی۔کیا کرتی ہے”۔اماں نے اْسے دور کر کے اپنا پلو ٹھیک کیا تھا۔لالی خوشی سے جھومتی چھلانگے مارتی کمرے میں کپڑے نکالنے دوڑی تھی۔شام کو اماں لالی اور مٹھائی سمیت شبو کا رشتہ لینے پہنچ گئی تھیں۔خالہ صغراں کو تو خوشی کے مارے غش پڑھ جاتا اگر اگے بڑھ کر اماں نا اْنہیں سنبھال لیتی۔ وہ بار بار اماں باقرہ کے ہاتھ چومتی اْنہیں اپنا محسن کہتی اور ہر بار اماں بڑے سخت الفاظ میں اْن کو ڈپٹ دیتیں۔ایک دم گھر میں عید کا سماں ہو گیا تھا۔بھابیوں نے بھی دوپٹے منہ میں ڈال لیے تھے۔ اتنا اچھا رشتہ وہ بھی معمولی صورت شبو کے لیے۔اور شبو وہ تو سب سے چھپتی چھپاتی چھت پہ چڑھ گئی تھی۔ بڑی مشکل سے لالی اْسے نیچے اْتار کے لائی تھی۔رشتہ ڈل گیا اور اْسی وقت قبول بھی ہوگیا۔مٹھائی بھی بَٹ گئی اور بڑی سادگی سے مقررہ دِنوں میں شبو اور بشیر کا نکاح بھی پڑھوا دیا گیا۔نا خالہ صغراں کا خرچہ ہوا نا بشیر کو قرض لینا پڑا اور یوں بڑی سادگی اور خوشی سے ایک گھر بھی بَس گیا۔شبوایک بے انتہا سْگھڑ ِسلیقہ شعار اور نرم گو طبیعت کی مالکن تھی۔آتے ساتھ ہی اْس نے پورا گھر بڑے سلیقہ سے سنبھال لیا تھا۔ بشیر کے کام میں بھی اْس کے آنے کے بعد خدا نے بے انتہا برکت ڈال دی تھی۔اپنی مدد کیلیے اْس نے دْکان پہ دو لڑکوں کو بھی رکھ لیا اور ساتھ ہی کچھ پیسے بچا کے ایک سکینڈہینڈ موٹر سائیکل بھی خرید لی۔اماں کی ناراضگی شبو کے آنے کے دو ہفتے بعد ہی اْڑن چھو ہوگئی تھی۔اب تو اْن کیلیے شبو سے بہتر کوئی تھا ہی نہیں۔بقول اْن کے شبو نے گھر کو جنت بنا دیا ہے۔بشیر کی شادی کے ایک سال بعد ہی لالی بھی خیریت سے اپنے گھر کی ہو گئی تھی۔اور یوں ایک چھوٹے سے پہلے قدم نے پورے گھر کو سکون کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا۔

                            ختم شد

 

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Pehla Qadam”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?